آبرو کی جو صفات فقرا سے پیدا، نہایت جوش پردریا ہے اپنی طبع موزوں کا، اے صبا! جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا، توسن طبع کو کرتا ہوں میں کوڑا کیا کیا، آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا، اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا، آپ کو یار نے عشاق سے اتنا کھینچا، عدوئے جاں بت بیباک نکلا، خودپرستی کا جو سودا ہوگیا، شعر میں یار کو ہم نے جو چھلاوا باندھا، یہ ہے نشان عشق کدودت مال کا، عشق کاغم نہ گیا، حسن کا غمزہ نہ گیا، توڑ کرسینہ ہمارا دل مضطر توڑا، قلقل شیشہ ہے بلبل کی صدا سے پیدا، گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا، عازم دشت جنوں ہو کے میں گھر سے اُٹھا، بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا، سرکش کوئی ہوکر کبھی برپا نہیں ہوتا، بزم قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زنہار جدا، غیر سے ہنستا ہے جاناں میرا، اشک افتادہ نظرآتے ہیں سارے دریا، شام سے حال عجب تا یہ سحر ہم نے کیا، خوب رویوں سے دل صفا نہ ہوا، ہجر میں تڑپا ہوں میں صورت بسمل کیا کیا، دکھائے رندوں کو نیرنگی شراب گھٹا، نہ چھوڑیے گا جو سونا بدل کے کروٹ کا، جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا، یار گل اندام سے پہلو جو خالی ہوگیا، ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا، کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہوگیا، بنی ہے تیر رلف سایا ہمارا، واعظ کے میں معتمد و معتبر ہوا، وارہر دم جو یونہی تیغ جفا کا ہوگا، بزم جہاں سے عیش ہمارا اُٹھالیا، ہے اپنے داغ پر ان کے نقاب کا پھاہا ، آئی اے گل عذار کیا کہنا، نزع میں ہیں نہ ادھر آئے گا، قبر پر بعد فنا آئیے گا، بڑھایا آبروئے دل سے وہ رتبہ تصور کا، دل صاف ہوا، آئینہ رو نظر آیا، پستی سے اوج، خاک میں مل کر بدل گیا، پیادہ پا میں رواں ہوئے لالہ زار ہوا، ہم نزع میں رہے ، نہ وہ آیا، غضب کیا، لے گیا چھین کے دل وہ بت پرفن کیسا، خلاف بلبل گلشن سے یہ زمانہ ہوا، داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا، حسن نے کچھ گنہ عشق جو دیکھا ہوتا، آنکھوں سے جب نہاں رخ دلدار ہوگیا، (متفرقات) (الف) کہیں معشوق کہیں عاشق کا مل دیکھا، میں دیکھ دیکھ کر جو رخ یار رہ گیا، خون دل سے رنگ اشکوں کا مبدل ہوگیا، پرتو فگن جو عارض پر نور ہوگیا (دریف ب) موجد گلشن ہے تاثیر بیان عندلیب، کاسہ مہ کی طرح جام سے ہے زینت شب، یوں ہے فرقت میں یاں جگر بیتاب، ہجر ساقی میں جودیکھے جوشش صہبا سحاب، ویرانہ ساں ہے ہجر کی شب انجمن خراب ، (دریف ت) رہتی ہے یاد ابروئے دلبر تما رات، یاد گیسو میں ہوئے اشک رواں آج کی رات، (دریف ث) غافلو! تقدیر کا رونا عبث، (دریف ج) بد ہے حریص درہم و دینار کا مزاج، دل ہے غذائے رنج، جگر ہے غذائے رنج، (دریف ح) شکوہ تاثیرشب ہے شکوہ تاثیرصبح، نہ کس طرح سے ہوا ہوہوائے یار میں روح، دکھلائیں گے ہمیں نہ وہ قامت کسی طرح، (متفرق): ہے گرد روئے یار کے آگے وقار صبح، (دریف خ) رخ پر ترے نقاب نہیں اے نگار سرخ، (دریف د) یونہی رہی جو ہماری سدا فغاں فریاد، زاہد کو ہوگا سنبل باغ جناں پسند، رکھتی ہے عاشقوں کو سدا چشم تر کر، دھوکا ہوا فلک کاتمہارے پلنگ پر، کرعدم آپ کو تو تارک دنیا ہوکر، بہار آئی ہے دیوانہ ہو نیرنگ گلستاں پر، نہ بے غم پرسش اعمال سے ہو فرش راحت پر، روکیں سمند عمر کو ہم کس مقام پر، وجد قاتل نے کیا میرا تڑپنا دیکھ کر، آجائے جذب عشق اگر زور شور پر، ساقیا! نو روز ہے سامان کر، بیتابی دل نے زور پاکر، موسٰی نہ طور پر نہ مسیح آسمان پر، دیکھے انجام کو آشفتہ مژگاں کیونکر، (متفرقات): یوں نکالا مجھے قسمت نے وطن سے باہر، (دریف ز) نچلا تو رہ کبھی فلک پیر چار روز، (دریف س) تیز ہے سودائے مژگان نگار آب کے برس، (دریف ش) کم بہت رکھتا ہے دل کو چرخ ناہنجار خوش، اللہ رے!شب کو ترا اے ماہ لقا رقص، (دریف ض) مکر و دغا ہے پیش بتان زمانہ فرض، (دریف ظ) باغ عالم میں ہے بے رنگ بیان واعظ، (دریف غ) کبھی فروغ نہ پائیں گے پیش یار چراغ، (دریف ف) حلقے کمند کے ہیں، نہیں حلقہائے زلف، (دریف ق) قدرت حق ہے زہے جلوہ کاشانہ عشق، شکست تار نفس ہوجو ہوں عدوئے فراق، (دریف ک) مسی ہوگی تری اے غیرت گلشن کب تک، چشم زخم نگہ اہل زمانہ کب تک، جگر کا داغ ہے یوں دل کے داغ کے نزدیک، یاں چشم حقیقت میں ہے سب دار فنا خاک، (دریف گ) روغن قازملتے ہیں چرب زبان سبزہ رنگ، نیرنگ آسماں سے جمے کا قضا کا رنگ، (دریف ل) اے صنم سب ہیں ترے ہاتھوں سے نالاں آج کل، (دریف م) اے چشم ! غرق آب فنا ہو جہاں تمام، حشر ہوتا ، کھینچتے گر آہ پر تاثیر ہم، نکلیں کہیں اساطہ وہم و گماں سے ہم، ابر ہیں، دیدہ پر آب سے ہم، (دریف ن)فصل گل ہے زاہدوں کو غم ہے میکش شاد ہیں، ممکن نہیں گذر ہوجوان کے مکان میں، آفت کا زور ضعف پکٹرتا ہے ہجر میں، مغتم ہے باغ عالم کی ہوا دو چار دن، سختیاں کچھ روز مرنے کی ہوس میں کھینچ لیں، طاق ہو، نظارہ آئینہ ادراک میں، بوئے گل کو درودیوار چمن کیا روکیں، عشق کا احترام کرتے ہیں، بندنے کے لیے جو آفتیں ہیں، کیا پر آشوب ہے دربارچمن، خاکساری کا چلن خوف زیاں رکھتا نہیں، کسی جگہ نہ ملا نقش جب زما نے میں، لی یار نے جو زلف سیہ فام ہاتھ میں، عدم سے آئے ہیں ان کے خیال روئے روشن میں، دم بدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں، دیکھ کر خوش رنگ اُس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں، جناب یوسف اگر بزم دلستاں دیکھیں، فکر کونین کی رہتی نہیں مے خواروں میں، گرمحبت کا دل میں داغ نہیں، فرق آئے گا جو مجھ رند کے سامانوں میں، تقریر اختلاف میں، کیونکر بڑھے نہیں، آنکھ سے آنکھ آج تک کیوں اے قمر ملتی نہیں، کس منہ سے کہیں گناہ کیا ہیں، یہی عالم رہے بس موسم گل کازمانے میںِ، رنگ ہے اسے ساقی سرشار قیصر باغ میں، سرخ ٹھہرا ترے رخ سے گل احمر کس دن، یہ محو ہیں کہ ذرا غم نہیں، ملال نہیں، محو ہیں نظارہ: چشم بت بے پیر میں ، یہ اُلجھ پڑنے کی خواچھی نہیںِ فلاسفہ ترا نظارہ جمال کریںِ جنوں میں محو تماشائے لالہ زار ہوں میں، عدم میں رہتے تھے کیا کام تھا یہاں سے ہمیں، محشر کا ہمیں کیا غم، عصیاں کسے کتے ہیں، شور جس کا ہے وہ ہے عشق جنوں زا دل میں، اختیاری عمل رند قدح نوش نہیں، تقدیر شکل ہجر کی تکتی ہے وصل میں، نشتروں سے دل بلبل کو لہوکرتے ہیں، بیداری فراق ہے شوق وصال میں، (دریف و) تم ہر اک رنگ میں اے یارنظر آتے ہو، تھی شہادت کی خوشی ایسی دل ناشاد کو، نہیں سائے سے کچھ بھی ہمسری سرولب جو کو، الفت خط سے ملا کوچہ جاناں مجھ کو، اے بتو! دھیان اگر جانب فریاد کرو، جام جم ہے جو چشم بینا ہو، کوئی صورت سے صفا ہو، جو عدوے باغ ہو برباد ہو، کھینچتی ہے ہم کو کانٹوں میں چمن کی آرزو، فی الحقیقت تم بہت مرغوب اورمنظور ہو، بیتاب غم سے جان نہ ہو دل حزیں نہ ہو، (دریف ہ) دنیا ئے بد نہاد کاسودا ہے سر کے ہاتھ، لیا منہ مری طرح سے جو ہوششدر آئنہ، ہے آج اغنیا کو میسر ہزار کچھ، تصویر اپنی چاند سی اے نوجوان ! دیکھ، (دریف ی ۔ے ) تخفیف جور دام بلا ہو تو جانیے، خیال خام ہے امید رکھنا فیض دشمن سے، بہا ر آئی کہیں دامن سے خار اُلجھیں بیاباں کے، مرے حال پر رحم کرتا نہیں ہے، عاشق قد ہوں پس مرگ یہ رفعت ہوگی، اڑتا ہے مجھ سے اوستم ایجاد! کس لیے، بغیر ساغرمے، احتضار میں گذری، وجہ حرمت کلال کی ہوتی، تری نظر سے جو دور اے ابو تراب کرے، چشم پر آب سے ہے نشوونما ساون کی، وہ یکایک باغ میں پہنچے جو اٹھلائے ہوئے، اذیت یہ الفت میں حاصل ہوئی، گل کو وہ چھیڑتے ہیں باغ میں آتے جاتے، کس دن شب غم جان کو آفت نہیں ہوتی، کچھ عناد ل سے جو وصف رخ جاناں ہوجائے، دولت سے ہیں تمام سمن پر بھرے ہوئے، کنار جو جو انھیں خواہش شراب ہوئی، کیا زہد خشک مستی صہبا کے سامنے، جب اُس نے مہر کو اے جذب دل کچھ جوش آتا ہے، شریعت ہے شرط محبت علی کی، آبرو دے اے مرے قد خمیدہ تو مجھے، بندہ اب ناصبور ہوتا ہے، فکر رنج وراحت کیسی، بستر ہمارا یار کے ایواں سے دور ہے، افتادگی سے خاک سراپنا اٹھایئے، اس بات کی ہے منتظری روز وشب مجھے، فرقت ساقی میں یہ مقسوم پر پتھر پڑے، طوفان یہ اُٹھا مری چشم پر آب سے، ہے عاشق قامت پہ عنایات تمہاری، کبھی رسائی آہ جگر نہیں ہوتی، بت پرستی ہے نہ طینت مری زنہار پھری، خدا کا قہر بتوں کا عتاب رہتا ہے، کیا بے یار سامان قیامت ساغر مل نے، ازل سے خنجر قاتل ہے میرے سر کے لیے، وقار عرش کم ہے آستاں سے، تری طرف سے دل اے جان جاں اٹھا نہ سکے، صفائی سے یہ ان کی صورت ہوئی، رات دن محو تماشائے بتاں رہتا ہے، ڈھیر دیکھے گل رخوں کی خاک کے، دوڑ چلنا راہ الفت میں کب اے دل چاہیے، اثر ایسا کہاں سے نالہہ شبگیر میں آنے، یہی ہے طور تو ہم سے نہ رسم و راہ رہے ، اثر آتش سود ا سے دوا جلتی ہے، نہ جیب کا ہے نہ دامن کا تار باقی ہے، چرخ کبھی رو ابھی سیدھا ہو تو مقصد مل جائے، اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے، زاہد کور سے خم پیر مغاں دور رہے، کیا جائے فتوحات خرابات مغاں ہے، شدنی امر میں یہ وہم وگماں کیا معنی، ہچکی لگی ہے دھیان میں اک آفتاب کے، طالب وصل سے تم آج بھی جھگڑا لائے، فلک تک بھی ہر چند جاتی ہے بجلی، یہ ٹکرایا سراپنا ان کے در سے، زاہد عبث نہ منتظر حور عیں رہے، ہم تو کعبے کی طرف صرف مناجات رہے، ہاتھ آگیا جو ساقی عالی مقام سے، ان بتوں کو جذبہ دل سے لتاڑا چاہیے، آپ اپنی بے وفائی دیکھیے، نفس نمرود ہے کیا ہونا ہے، دل پر داغ باغ کس کا ہے، کبھی نہ قدر ہوئی یہ ملال لے کے چلے، بہارآئے الہی چمن پری ہوجائے، سر سے شیشے غم ساقی میںسراسر توڑے، عکس پر ان کو پری کا جوگماں ہوتا ہے، نالوں کا اذن ہودل مجبور کے لیے، یہ داغ ہے خورشید لب بام نہیں ہے، اے جنوں ترک نہ ہو الفت مژگاں ہم سے، رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے، دل ہمارا کشتہ نیرنگ ہے، شب غم اوربخت تیرہ ہے، لڑگئی اپنی نظر اُس کے رخ پر نور سے، دل لگانا عذاب ہوتاہے، خوب معلوم ہے حال دل ناشاد مجھے، کوئی صورت نہیں نچنے کی، وہ آفت آئی، پس ازفنا مجھے موج ہوا کمند ہوئی، ساغر لب خشک سے لگا دے، آئے نہ آئے دم کا کسے اعتبار ہے، غافل نہ دیکھ ذر کو محبت کی آنکھ سے، (مفردات: رباعیات): قطعات تاریخ (ازمصنف):1۔ قطعہ تاریخ کتاب پنجہ مہر تالیف مرزا حاتم علی مہر، 2۔ قطعہ تاریخ مسجد، 3۔ قطعہ تاریخ انتقال والدہ شیخ مہدی حسن نظم، 4۔ قطعہ تاریخ امام باڑہ بنی جان طوائف۔ (قطعات تاریخ وفات میر وزیر علی صبا): قطع تاریخ طبع زاد شیخ فضل احمد متخلص بہ کیف ایضا، ازشیخ امداد علی صاحب متخلص بہ بحر، از خواجہ عزیز الدین متخلص بہ عزیز، ازمیر ولد حسن متخلص بہ فوق، ایضا، از مرزا آغا حسن متخلص بہ آغا، ازمرزا حاتم علی متخلص بہ مہر، از میر عباس صاحب متخلص بہ سلیم، از شاہ مرزا صاحب متخلص بہ کاشف، از مرزا شمس الدین حسین متخلص بہ شمس، از مولوی محمد بخش متخلص بہ شہید، ازمیر ہادی علی خاں متخلص بہ مفتون، خاتمۃ الطبع، (قطعات تاریخ طبع دیوان میر وزیر علی صبا): از نتائج افکار شیخ فضل احمد متخلص بہ کیف، ایضا، از میر ولد حسن صاحب متخلص بہ فوق، ازمرزا آغا حسن صاحب متخلص بہ آغا، ازشیخ امداد علی صاحب متخلص بہ بحر، از شیخ اشرف علی صاحب متخلص بہ اشرف، از خادم علی صاحب امیٹھوی متخلص بہ سخا، ازمیر حبیب اللہ صاحب متخلص بہ تارک شاگرد صبا، از نام چیت رام کاتب دیوان شاگرد منشی میڈولال زار، ایضاً، ازمنشی امیراللہ صاحب متخلص بہ تسلیم، از میر محمد حسین صاحب متخلص بہ محمد۔