Image from Google Jackets

قصہ ہائے غم : محمد شریف

By: Material type: TextTextPublication details: Faisalabad : Qartaas, 2007.Description: 160 pages U/1286Subject(s): DDC classification:
  • 891.4391 ش ر ی 2007
Contents:
(غزلیں): تیری تقریر زبانی کی ہے تسوید عزیز، اِس زمانے میں سبھی لوگوں کا کردار ہے ایک، میں نے تجھ کو نہ کبھی تو نے ہی سمجھا ہے مجھے، بیچ کر دین ووطن آنسو بہاتے کیوں ہو، تونےاس نقشہ حالات کو دیکھا کیا ہے، مردحق بیں مصلحت کا بندہ ہوسکتا نہیں، بعدمدت ے جو ہم بادصبا دیکھتے ہیں، کتنے آسان کئے ہم نےسوالات اُن سے، دریا میں ہم الٹی لہریں بہنے کا ڈھنگ آیاناں، تم انا الحق جو کسی روش کہوتوجانیں، اہل ثروت کازمانے میں تھا چرچا ہردم، عمربھر جس پہ رہاشاداں فرحاں لوگوم وہ جو سب سے ہی پیارا ہے وہی میرا ہے، تجھ سے گرچہ مجھے شکوہ بھی شکایت بھی ہے، کوئی طائر اس گلستان میں چہکتا بھی نہیںِ، تم ہولنگر خانہ افرنگ کے نوخوشہ چیں، یہ غنیمت ہے مقدرمیں تھی سعی ناکام، ظلمت شب ہے مہ تاباں نکلنا ہے ابھی، بھول جاتاہوں یہ اکثرکہ تو قہار بھی ہے، قتل میں میرے اُنہیں شک ہے ترے کردارپر، یارمحفل میں تری رنگ جماتے کیسے، وسعت گلشن میں خوشبو کے ہے منبع کی تلاش،عجب سکوت ساگلشن میں اب کے چھایا ہے، گلی گلی میں ہیں عامل بھی پیر کامل بھی، بزم میں پہلے ترے قرب کو اعدا پہنچے، آج کس شان سے گلشن میں بہارآئی ہے، اہل گلشن تری آمد پر بھلا کیا کرتے، قرار خود کو وہ خواب وخیال دیں نہ کہیں، اب تو ہم بھول گئے اپنا فسانہ جاناں، حسن بے باک خو دیتے ہیں بجا دیتے ہیں، کام کتنے ہی کئے ۔ اس سے بڑا کیا کرتے، کیا ہوا لوگوں کے اب چہرے چمکتے کیوں نہیں، شوق پرواز تو تھا اپنا یہی حال رہا، ڈھونڈتے ہیں دشت میں جو رہگذرہے کہ نہیں، عمرالفت میں بسرکی ایک احساس لطیف کے ساتھ، سبدگل لے کے میں حاضر توہوا تیرے حضور، خداجانے برا ہے یا بھلاہے، جو خود تم خوگر جابر رہے ہو، وہ اک عرصہ جواس در پر رہے ہو، زندگی بارگراں تھی پراٹھائے رکھی، جووہ شاداں نہیں فرحاں نہیں ہے، یاں ہجوم بے کساں واں محفل طرب وسرور، کہانی جس کی شہرت ہوگئی ہے، مطمئن ہے دل کہ اپنا مہرباں کوئی تو ہے، لوگ دیوانے ہوئے جاتے ہیں شہرت کے لیے، جوتیرے کوچہ الفت میں آگیا ہوں میں، تیری دانش حق میں باطل کو سمونا عیش ہے، یہ باربار کی پرسش کو سموتا عیش ہے، یہ باربار کی پرسش کو جو وہ آتے ہیں، گرچہ پرکارزیاں کاروں کی تدبیریں ہیں، باعث ایزادی امکان رحمت تیرا، اب کرودردکااندازہ جو چلا یا ہوں، اک مناسب سی جگہ مل تو گئی اندر حطیم، ہم پہ عائد ہے وہی صدق وصفا کا معیار، یہ میرا جام جام جم نہیں ہے، ہے مرا نزدرقیبوں کے ترے گھرچلنا، جہاں میں ہرکہیں اک زیر وبم ہے، کتنے اچھے ہو میرے دیس کے پیارے لوگو، مری نگہ میں تودیوان ہے وہ سطر ہنر، زندگی کامدعا کیا، بس تیری ذات حمید، محفلیں اُن کی نشاط افزا جہاں آراء رہیں، آرہا ہے باغ میں اک گلبدن ہے یہ خبر، وعدہ ہدیہ خدمت نہیں ہے، وہ گردش جام کی پیر مغاں جس کاتھا اک ماہر، (نظمیں): خود عرضی ۔ آج مسجدسے ہوا ہے اُن کا اعلان وفات، ایک نعت۔ غزل سے میں ہوا تائب نہ تھی یہ میرے بس کی بات، شاعری۔ دوستوں نے شعر کہنے پہ جوا کسایا مجھے، دستی پنکھا۔ وقت آخر تو نے پوچھا زندگی کیسی رہی۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)
Holdings
Item type Current library Call number Status Barcode
Book NPT-Nazir Qaiser Library 891.4391 ش ر ی 2007 (Browse shelf(Opens below)) Available NPT-012357

(غزلیں): تیری تقریر زبانی کی ہے تسوید عزیز، اِس زمانے میں سبھی لوگوں کا کردار ہے ایک، میں نے تجھ کو نہ کبھی تو نے ہی سمجھا ہے مجھے، بیچ کر دین ووطن آنسو بہاتے کیوں ہو، تونےاس نقشہ حالات کو دیکھا کیا ہے، مردحق بیں مصلحت کا بندہ ہوسکتا نہیں، بعدمدت ے جو ہم بادصبا دیکھتے ہیں، کتنے آسان کئے ہم نےسوالات اُن سے، دریا میں ہم الٹی لہریں بہنے کا ڈھنگ آیاناں، تم انا الحق جو کسی روش کہوتوجانیں، اہل ثروت کازمانے میں تھا چرچا ہردم، عمربھر جس پہ رہاشاداں فرحاں لوگوم وہ جو سب سے ہی پیارا ہے وہی میرا ہے، تجھ سے گرچہ مجھے شکوہ بھی شکایت بھی ہے، کوئی طائر اس گلستان میں چہکتا بھی نہیںِ، تم ہولنگر خانہ افرنگ کے نوخوشہ چیں، یہ غنیمت ہے مقدرمیں تھی سعی ناکام، ظلمت شب ہے مہ تاباں نکلنا ہے ابھی، بھول جاتاہوں یہ اکثرکہ تو قہار بھی ہے، قتل میں میرے اُنہیں شک ہے ترے کردارپر، یارمحفل میں تری رنگ جماتے کیسے، وسعت گلشن میں خوشبو کے ہے منبع کی تلاش،عجب سکوت ساگلشن میں اب کے چھایا ہے، گلی گلی میں ہیں عامل بھی پیر کامل بھی، بزم میں پہلے ترے قرب کو اعدا پہنچے، آج کس شان سے گلشن میں بہارآئی ہے، اہل گلشن تری آمد پر بھلا کیا کرتے، قرار خود کو وہ خواب وخیال دیں نہ کہیں، اب تو ہم بھول گئے اپنا فسانہ جاناں، حسن بے باک خو دیتے ہیں بجا دیتے ہیں، کام کتنے ہی کئے ۔ اس سے بڑا کیا کرتے، کیا ہوا لوگوں کے اب چہرے چمکتے کیوں نہیں، شوق پرواز تو تھا اپنا یہی حال رہا، ڈھونڈتے ہیں دشت میں جو رہگذرہے کہ نہیں، عمرالفت میں بسرکی ایک احساس لطیف کے ساتھ، سبدگل لے کے میں حاضر توہوا تیرے حضور، خداجانے برا ہے یا بھلاہے، جو خود تم خوگر جابر رہے ہو، وہ اک عرصہ جواس در پر رہے ہو، زندگی بارگراں تھی پراٹھائے رکھی، جووہ شاداں نہیں فرحاں نہیں ہے، یاں ہجوم بے کساں واں محفل طرب وسرور، کہانی جس کی شہرت ہوگئی ہے، مطمئن ہے دل کہ اپنا مہرباں کوئی تو ہے، لوگ دیوانے ہوئے جاتے ہیں شہرت کے لیے، جوتیرے کوچہ الفت میں آگیا ہوں میں، تیری دانش حق میں باطل کو سمونا عیش ہے، یہ باربار کی پرسش کو سموتا عیش ہے، یہ باربار کی پرسش کو جو وہ آتے ہیں، گرچہ پرکارزیاں کاروں کی تدبیریں ہیں، باعث ایزادی امکان رحمت تیرا، اب کرودردکااندازہ جو چلا یا ہوں، اک مناسب سی جگہ مل تو گئی اندر حطیم، ہم پہ عائد ہے وہی صدق وصفا کا معیار، یہ میرا جام جام جم نہیں ہے، ہے مرا نزدرقیبوں کے ترے گھرچلنا، جہاں میں ہرکہیں اک زیر وبم ہے، کتنے اچھے ہو میرے دیس کے پیارے لوگو، مری نگہ میں تودیوان ہے وہ سطر ہنر، زندگی کامدعا کیا، بس تیری ذات حمید، محفلیں اُن کی نشاط افزا جہاں آراء رہیں، آرہا ہے باغ میں اک گلبدن ہے یہ خبر، وعدہ ہدیہ خدمت نہیں ہے، وہ گردش جام کی پیر مغاں جس کاتھا اک ماہر، (نظمیں): خود عرضی ۔ آج مسجدسے ہوا ہے اُن کا اعلان وفات، ایک نعت۔ غزل سے میں ہوا تائب نہ تھی یہ میرے بس کی بات، شاعری۔ دوستوں نے شعر کہنے پہ جوا کسایا مجھے، دستی پنکھا۔ وقت آخر تو نے پوچھا زندگی کیسی رہی۔

In Urdu

Hbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.