Image from Google Jackets

دیوان غالب : نسخہ حمیدیہ مرزا غلب

By: Contributor(s): Material type: TextTextPublication details: Lahore : Majlis-i-Taraqi-i-Adab, 1992.Description: 290 pages U/1094Subject(s): DDC classification:
  • 891.4391 غ ا ل 1992
Contents:
قصائد: بہر ترویج جناب والی یوم الحساب، ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار، توڑے ہے عجز تنک حوصلہ بر روئے زمیں، جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی (غزلیات) دریف الف): نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، جنوں گرم انتظارونالہ بیتابی کمند آیا، عالم جہاں بہ عرض بساط وجودتھا، سمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا، تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا، خود آرا وحشت چشم پری سے شب وہ بدخو تھا، کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا، کارخانے سے جنون کے بھی میں عریاں نکلا، عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا، شوق ہررنگ رقیب سروسامان نکلا، دمیدن کے کمیں جوں ریشہ زیر زمیں پایا، نزاکت سے فسون دعوی طاقت شکستن ہا، بسان جوہر آئینہ از ویرانی دل ہا، بہ شغل انتظار مہ وشاں درخلوت شب ہا، دہر میں نقش وفا وجہ لسلی ہوا، بہ رہن شرم ہے با وصف شہرت اہتمام اس کا، شب اختر قدح عیش نے محمل باندھا، شب کہ ذوق گفتگو سے تری دل بے تاب تھا، جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا، نالہ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا، نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا، یاد روزے کہ نفس درگرہ یارب تھا، رات دل گرم خیال جلوہ جانانہ تھا، پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا، بسکہ جوش گرہ سے زیر وزبر ویرانہ تھا، نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بےوفائی کا، شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا، کرے گر حیات نظارہ طوفاں نکتہ گوئی کا، یک گام بے کودی سے لوٹیں بہار صحرا، وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا، وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا، گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا، کس کا خیال آئنہ انتظار تھا، نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا، زبس خوں گشتہ رشک وفا تھا وہم بسمل کا، کیا کس شوخ نے ناز از سر تمکیں نشتن، لب خشک در تشنگی مردگاں کا، شب کہ دل زخمی عرض دو جہاں تیر آیا، سیرآں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا، ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا، بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا، طاؤس در رکاب ہے ہرذرہ آہ کا، خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا، یک ذرہ زمین نہیں بے کار باغ کا، عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل یاران غمگیں کا، بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا، ورد اسم حق سے دیدار صنم حاصل ہوا، گرنہ احوال شب فرقت بیاں ہوجائے گا، قطرہ مے بسکہ حیرت سے نفس پرورہوا، اف نہ کی گوسوز دل سے بے محابا جل گیا، پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا، تودوست کسو کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا، ہے تنگ ز واماندہ شدن حوصلہ پا، عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا، بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہوگیا، گرفتاری میں فرمان خط تقدیر سے پیدا، بہ مہر نامہ جو بوسہ گل پیام رہا، سحرگہ باغ میں وہ حیرت گلزار ہو پیدا، خلوت آبلہ پا میں ہے جولاں میرا، شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا (ردیف ب) بسکہ ہے میخانہ ویراں جوں بیابان خراب، ہے بہاراں میں خزاں پرور خیال عندلیب، (ردیف ت) جاتا ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے اُدھر انگشت، نیم رنگ جلوہ ہے بزم تجلی زار دوست، (ردیف ث) دور شمع کشتہ گل بزم سامانی عبث، ناز لطف عشق باوصف توانائی عبث، (ردیف ج) گلش میں بندوبست بہ ضبط دگرہے آج، جنبش گلبرگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج، (ردیف چ) بے دل نہ ناز وحشت جیب دریدہ کھینچ، قطع سفر ہستی وآرام فنا ہیچ، نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ، (ردیف ح) دعوی عشق بتاں سے بہ گلستاں گل وصبح، (ردیف د) بسکہ وہ پاکوبیاں در پردہ وحشت ہیں یاد، تو پست فطرت اور خیال بسا بلند، حسرت دستگہ وپائے تحمل تاچند، بہ کام دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد، حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد، (ردیف ر) بلا سے ہیں جو یہ پش نظر درودیوار، شیشہ آتشیں رخ پر نور، بسکہ مائل ہے وہ رشک ماہتاب آئینے پر، نہیں بند زلیخا بے تکلف ماہ کنعاں پر، صفائے حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر، بینش بسعی ضبط جنوں نوبہار تر، دیایاروں نے بے ہوشی میں درماں کا فریب آخر، فسون یک دلی ہے لذت بیدار دشمن پر، (ردیف ز) حسن خود آرا کو ہے مشق تغافل ہنوز، بیگانہ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز، چاک گریباں کو ہے ربط تامل ہنوز، میں ہوں سراب یک تپش آموختن ہنوز، حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز، نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز، کوبیابان تمنا وکجا جولان عجز، داغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسارہنوز، نہ بندھا تھا بہ عدم نقش دل مور ہنوز، (ردیف س) حاصل دلبستگی ہے عمر کو تاہ اور بس، دشت الفت میں ہے خاک کشتگاں مجوس وبس، کرتا ہے بہ یاد بت رنگیں دل مایوس، (ردیف ش) زجوش اعتدال فصل وتمکین بہار آتش، بہ اقلیم سخن ہے جلوہ گرد سواد آتش، (ردیف ع) جادہ رہ خور کر وقت شام ہے تارشعاع، رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع، (ردیف غ) عشاق اشک چشم سے دھوویں ہزار داغ، بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منع بار باغ، (ردیف ف) نامہ بھی لکھتے ہو تو بخط غبار حیف، عیّسی مہرباں ہے شفا زیریک طرف، (ردیف ک) زخم پرباندھے ہیں کب طفلان بے پروا نمک، آہ کو چاہیے اک عمر اثرہوتے تک، آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک، (ردیف گ) گرتجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ، (ردیف ل) بدر ہے آئینہ طاق ہلال، ہرعضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل، ہوں بہ وحشت انتظار آوارہ دشت خیال، بہرعرض حال شبنم ہے رقم ایجاد گل، گرچہ ہے یک بیضہ طاؤس آسا تنگ دل، (ردیف م) اثر کمندی فریاد نا رسا معلوم، ازانجا کہ حسرت کش یارہیں ہم، بسکہ ہیں بدمست بشکن میخانہ ہم، جس دم کہ جادہ وارہوتار نفس تمام، رہتے ہیں سردگی سےسخت بیدردانہ ہم (ردیف ن) خوش وحشتے کہ عرض جنون فنا کروں، غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں، آنسوکہوں کہ آہ سوار ہوا کہوں، ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن، طاؤس نمط داغ کے گررنگ نکالوں، سودائے عشق سے دم سرد کشیدہ ہوں، کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں، خوں در جگر نہفتہ بہ زردی رسیدہ ہوں، جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں، جوں
مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں، بقدر لفظ ومعنی فکرت احرام گریباں ہیں، جائےکہ پائے سیل بلا درمیاں نہیں، مرگ شیریں ہوگئی تھی کو ہکن کی فکر میں، ہے ترحشم آفریں آرائش بیداد یاں، اے نوا ساز تماشا سربکف جلتا ہوں میں، فتادگی میں قدم استوارکھتے ہیں، تن بہ بند ہوس درنہ دادہ رکھتے ہیں، بہ غفلت عطر گل ہم آگہی مخمور ملتے ہیں،سرشک آشفتہ سرتھا قطرہ زن مژگاں سے جائے میں، فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں، پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں، ہوئی ہیں آب شرم کوشش بے جا سے تدبیریں، تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں، بے دماغی حیلہ جوئے ترک تنہائی نہیں، ظاہرا سرپنجہ افتادگاں گیرا نہیں، ضبط سے مطلب بجزوارستگی دیگرنہیں، دیکھیے مت چشم کم سے سوئے ضبط افسردگاں، صاف ہے ازبسکہ عکس گل سے گلزار چمن، (ردیف و) اگروہ آفت نظارہ جلوہ گسترہو، بے درد سربہ سجدہ الفت فرد نہ ہو، حسد پیمانہ ہے دل عالم آب تماشا ہو، مبادا بے تکلف فصل کا برگ ونوا گم ہو، خشکی مے نے تلف کی، میکدے کی آبرو، رنگ طرب ہے صورت عہد وفاکرو، (ردیف ہ) رفتار سے شیرازہ اجزائے قدم باندھ، خلق ہے صفحہ عبرت سے سبق ناخواندہ، بسکہ مے پیتے ہیں ارباب فنا پوشیدہ، جز دل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ، جوش دل ہے نشہ ہائے فطرت بیدل نہ پوچھ، شکوہ وشکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ، ازمہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ، کلفت ربط ابن وآں غفلت مسدعا سمجھ، (ردیف ی) دل ہی نہیں کہ منت درباں اٹھائیے، ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے، غم دنیا سے گرپائی بھی فرصت سراٹھانے کی، بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی، پھونکتا ہے نالہ ہر شب صوراسرافیل کی، کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے، حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی، نگہ اس چشم کی افزوں کرے ہے ناتوانائی، کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے، درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے، سرگشتگی میں عالم ہستی کے یاس ہے، گرخامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے، نظر بہ نقص گدایاں کمال بے ادبی ہے، بسکہ زیرخاک با آب طراوت راہ ہے، بسکہ چشم از انتظار خوش خطاں بے نور ہے، رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے، ہے آرمیدگی میں نکوہش بحا مجھے، اے خیال وصل نادر ہے مے آشامی تری، ربط تمیز اعیاں درد مئے صدا ہے، ضبط سے جوں مردمک اسپند اقامت گیر ہے، گریاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے، ذوق بے پروا خراب وحشت تسخیر ہے، یہ سرنوشت میں میری ہے اشک افشانی، بے خود زبسکہ خاطر بے تاب ہوگئی، ہررنگ سوز پردہ یک ساز ہے مجھے، کہوں کیا گرمجوشی میکشی میں شعلہ رویاں کی، جنوں تہت کش تسکین نہ ہو، گوشادمانی کی، نکوہش ہے سزا فریادی بیداد دلبر کی، نگایار نے جب جب عرض تکیف شرارت کی، آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے، خدایا! دل کہاں تک دن بصد رنج وتعب کاٹے، ہوا جب حسن کم خط برعذار سادہ آتا ہے، بہ فکر حیرت رم آئنہ پرداز زانو ہے، خبر نگہ کونگہ چشم کو عدو جانے، دیکھ تری خوئے گرم دل بہ تپش رام ہے، ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے، ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے، تشنہ خون تماشا ہو جو وہ پانی مانگے، باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے، نہ ہوئی گرمرے مرنے سے تسلی نہ سہی، دل بیمار از خود رفتہ تصویر نہالی ہے، نشہ مے بے چمن دور چراغ کشتہ ہے، تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے، کاوش درد حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے گلشن کو تیری صبحت ازبسکہ خوش آئی ہے، دلا! عبث ہے تمنائے خاطر افروزی، محو آرامیدگی سامان بے تابی کرے، یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے، بہ نقص ظاہری رنگ کمال طبع پنہاں ہے، عاشق نقاب جلوہ جانانہ چاہیے، جہاں زندان موجستان دلہائے پریشاں ہے، صبح سے معلوم آثار ظہور شام ہے، ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے، اے خوشا وقتے کہ ساقی یگ خمستاں وا کرے، چاک کی خواہش اگروحشت بہ عریانی کرنے، چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے، خواب جمعیت محمل ہے پریشاں مجھ سے، بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے، ہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے، عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے، بسکہ حیرت سے زپاافتادہ زنہار ہے، تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے، شفق بہ دعوی عاشق گواہ رنگیں ہے، اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے، جوہر آئینہ ساں مژگاں بہ دل آسودہ ہے، بہ بزم مے پرستی حسرت تکلیف بے جا ہے، بہرپروردن سراسر لطف گسترسایہ ہے، چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے، فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے، عیادت بسکہ تجھ سے گرمی بازار بستر ہے، خطر ہے رشتہ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے، نوائے خفتہ الفت اگر بے تاب ہوجاوے، تاچند نازمسجد وبت خانہ کھینچیے، وہ مژہ برآہ رویانیدن از دل تیز ہے، دامان دل بہ وہم تماشا اے خوشا وقتے کہ ساقی یگ خمستاں وا کرے، چاک کی خواہش اگروحشت بہ عریانی کرنے، چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے، خواب جمعیت محمل ہے پریشاں مجھ سے، بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے، ہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے، عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے، بسکہ حیرت سے زپاافتادہ زنہار ہے، تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے، شفق بہ دعوی عاشق گواہ رنگیں ہے، اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے، جوہر آئینہ ساں مژگاں بہ دل آسودہ ہے، بہ بزم مے پرستی حسرت تکلیف بے جا ہے، بہرپروردن سراسر لطف گسترسایہ ہے، چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے، فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے، عیادت بسکہ تجھ سے گرمی بازار بستر ہے، خطر ہے رشتہ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے، نوائے خفتہ الفت اگر بے تاب ہوجاوے، تاچند نازمسجد وبت خانہ کھینچیے، وہ مژہ برآہ رویانیدن از دل تیز ہے، دامان دل بہ وہم تماشا نہ کھینچیے، زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے، ترجبیں رکھتی ہے شرم قطرہ سامانی مجھے، یاد ہے شادی میں عقد نالہ یا رب مجھے، بسکہ سودائے خیال زلف وحشت ناک ہے، زبسکہ
مشق تماشا جنوں علامت ہے، مژہ پہلوئے چشم اے جلوہ ادراک باقی ہے، شکل طاؤس گرفتاربنایاہے مجھے، شوخی مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے، خود فردشیہائے ہستی بسکہ جائے خندہ ہے، حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے ، جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی، جنوں رسوائی وارستگی زنجیربہتر ہے، وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی، دریوزہ سامان ہا اے بے سروسامانی، باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے، کوہ کے ہوں بارخاطر گرصدا ہوجائیے، داغ پشت دست عجز شعلہ خس بہ دنداں ہے، گریہ سرشاری شوقے بہ بیاباں زدہ ہے، خواب غفلت بہ کمیں گاہ نظرپنہاں ہے، مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے، غم وعشرت قدم بوس دل تسلیم آئیں ہے، دیکھنا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے، نظر پرستی و بے کاری وخود آرائی، کوششہمہ بے تاب تردد شکنی ہے، کاشانہ ہستی کہ بر انداختی ہے، گلستاں بے تکلف پیش یا افتادہ مضموںہے، منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے، گدائے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سے، جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے، حکم بے تابی نہیں اوعر آرمیدن منع ہے، قتل عشاق نہ غفلت کش تدبیر آوے، خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے ، چار سوئے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے، بے تابی یاد دوست ہم رنگ تسلی ہے، آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے، شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے، اگرگل حسن والفت کی بہم خوشیدنی جائے، سوختگاں کی خاک میں ریزش نقش داغ ہے، (رباعیات): بعد ازاتمام بزم عید اطفال، ہرچند کہ دوستی میں کامل ہونا، شب زلف ورخ عرق فشاں کا غم تھا، دل تھا کہ جوجان درد تمہید سہی، سامان ہزار جستجو یعنی دل، اے کاش بتاں کا خنجر سینہ شگاف، اے کثرت فہم بے شمار اندیشہ، دل سوز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج، گرجوہر امتیاز ہوتاہم میں، ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے، مشکل ہے زبس کلام میرااے دل۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)

دیوان غالب

قصائد: بہر ترویج جناب والی یوم الحساب، ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار، توڑے ہے عجز تنک حوصلہ بر روئے زمیں، جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی (غزلیات) دریف الف): نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، جنوں گرم انتظارونالہ بیتابی کمند آیا، عالم جہاں بہ عرض بساط وجودتھا، سمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا، تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا، خود آرا وحشت چشم پری سے شب وہ بدخو تھا، کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا، کارخانے سے جنون کے بھی میں عریاں نکلا، عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا، شوق ہررنگ رقیب سروسامان نکلا، دمیدن کے کمیں جوں ریشہ زیر زمیں پایا، نزاکت سے فسون دعوی طاقت شکستن ہا، بسان جوہر آئینہ از ویرانی دل ہا، بہ شغل انتظار مہ وشاں درخلوت شب ہا، دہر میں نقش وفا وجہ لسلی ہوا، بہ رہن شرم ہے با وصف شہرت اہتمام اس کا، شب اختر قدح عیش نے محمل باندھا، شب کہ ذوق گفتگو سے تری دل بے تاب تھا، جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا، نالہ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا، نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا، یاد روزے کہ نفس درگرہ یارب تھا، رات دل گرم خیال جلوہ جانانہ تھا، پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا، بسکہ جوش گرہ سے زیر وزبر ویرانہ تھا، نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بےوفائی کا، شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا، کرے گر حیات نظارہ طوفاں نکتہ گوئی کا، یک گام بے کودی سے لوٹیں بہار صحرا، وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا، وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا، گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا، کس کا خیال آئنہ انتظار تھا، نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا، زبس خوں گشتہ رشک وفا تھا وہم بسمل کا، کیا کس شوخ نے ناز از سر تمکیں نشتن، لب خشک در تشنگی مردگاں کا، شب کہ دل زخمی عرض دو جہاں تیر آیا، سیرآں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا، ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا، بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا، طاؤس در رکاب ہے ہرذرہ آہ کا، خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا، یک ذرہ زمین نہیں بے کار باغ کا، عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل یاران غمگیں کا، بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا، ورد اسم حق سے دیدار صنم حاصل ہوا، گرنہ احوال شب فرقت بیاں ہوجائے گا، قطرہ مے بسکہ حیرت سے نفس پرورہوا، اف نہ کی گوسوز دل سے بے محابا جل گیا، پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا، تودوست کسو کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا، ہے تنگ ز واماندہ شدن حوصلہ پا، عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا، بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہوگیا، گرفتاری میں فرمان خط تقدیر سے پیدا، بہ مہر نامہ جو بوسہ گل پیام رہا، سحرگہ باغ میں وہ حیرت گلزار ہو پیدا، خلوت آبلہ پا میں ہے جولاں میرا، شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا (ردیف ب) بسکہ ہے میخانہ ویراں جوں بیابان خراب، ہے بہاراں میں خزاں پرور خیال عندلیب، (ردیف ت) جاتا ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے اُدھر انگشت، نیم رنگ جلوہ ہے بزم تجلی زار دوست، (ردیف ث) دور شمع کشتہ گل بزم سامانی عبث، ناز لطف عشق باوصف توانائی عبث، (ردیف ج) گلش میں بندوبست بہ ضبط دگرہے آج، جنبش گلبرگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج، (ردیف چ) بے دل نہ ناز وحشت جیب دریدہ کھینچ، قطع سفر ہستی وآرام فنا ہیچ، نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ، (ردیف ح) دعوی عشق بتاں سے بہ گلستاں گل وصبح، (ردیف د) بسکہ وہ پاکوبیاں در پردہ وحشت ہیں یاد، تو پست فطرت اور خیال بسا بلند، حسرت دستگہ وپائے تحمل تاچند، بہ کام دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد، حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد، (ردیف ر) بلا سے ہیں جو یہ پش نظر درودیوار، شیشہ آتشیں رخ پر نور، بسکہ مائل ہے وہ رشک ماہتاب آئینے پر، نہیں بند زلیخا بے تکلف ماہ کنعاں پر، صفائے حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر، بینش بسعی ضبط جنوں نوبہار تر، دیایاروں نے بے ہوشی میں درماں کا فریب آخر، فسون یک دلی ہے لذت بیدار دشمن پر، (ردیف ز) حسن خود آرا کو ہے مشق تغافل ہنوز، بیگانہ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز، چاک گریباں کو ہے ربط تامل ہنوز، میں ہوں سراب یک تپش آموختن ہنوز، حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز، نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز، کوبیابان تمنا وکجا جولان عجز، داغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسارہنوز، نہ بندھا تھا بہ عدم نقش دل مور ہنوز، (ردیف س) حاصل دلبستگی ہے عمر کو تاہ اور بس، دشت الفت میں ہے خاک کشتگاں مجوس وبس، کرتا ہے بہ یاد بت رنگیں دل مایوس، (ردیف ش) زجوش اعتدال فصل وتمکین بہار آتش، بہ اقلیم سخن ہے جلوہ گرد سواد آتش، (ردیف ع) جادہ رہ خور کر وقت شام ہے تارشعاع، رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع، (ردیف غ) عشاق اشک چشم سے دھوویں ہزار داغ، بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منع بار باغ، (ردیف ف) نامہ بھی لکھتے ہو تو بخط غبار حیف، عیّسی مہرباں ہے شفا زیریک طرف، (ردیف ک) زخم پرباندھے ہیں کب طفلان بے پروا نمک، آہ کو چاہیے اک عمر اثرہوتے تک، آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک، (ردیف گ) گرتجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ، (ردیف ل) بدر ہے آئینہ طاق ہلال، ہرعضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل، ہوں بہ وحشت انتظار آوارہ دشت خیال، بہرعرض حال شبنم ہے رقم ایجاد گل، گرچہ ہے یک بیضہ طاؤس آسا تنگ دل، (ردیف م) اثر کمندی فریاد نا رسا معلوم، ازانجا کہ حسرت کش یارہیں ہم، بسکہ ہیں بدمست بشکن میخانہ ہم، جس دم کہ جادہ وارہوتار نفس تمام، رہتے ہیں سردگی سےسخت بیدردانہ ہم (ردیف ن) خوش وحشتے کہ عرض جنون فنا کروں، غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں، آنسوکہوں کہ آہ سوار ہوا کہوں، ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن، طاؤس نمط داغ کے گررنگ نکالوں، سودائے عشق سے دم سرد کشیدہ ہوں، کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں، خوں در جگر نہفتہ بہ زردی رسیدہ ہوں، جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں، جوں

مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں، بقدر لفظ ومعنی فکرت احرام گریباں ہیں، جائےکہ پائے سیل بلا درمیاں نہیں، مرگ شیریں ہوگئی تھی کو ہکن کی فکر میں، ہے ترحشم آفریں آرائش بیداد یاں، اے نوا ساز تماشا سربکف جلتا ہوں میں، فتادگی میں قدم استوارکھتے ہیں، تن بہ بند ہوس درنہ دادہ رکھتے ہیں، بہ غفلت عطر گل ہم آگہی مخمور ملتے ہیں،سرشک آشفتہ سرتھا قطرہ زن مژگاں سے جائے میں، فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں، پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں، ہوئی ہیں آب شرم کوشش بے جا سے تدبیریں، تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں، بے دماغی حیلہ جوئے ترک تنہائی نہیں، ظاہرا سرپنجہ افتادگاں گیرا نہیں، ضبط سے مطلب بجزوارستگی دیگرنہیں، دیکھیے مت چشم کم سے سوئے ضبط افسردگاں، صاف ہے ازبسکہ عکس گل سے گلزار چمن، (ردیف و) اگروہ آفت نظارہ جلوہ گسترہو، بے درد سربہ سجدہ الفت فرد نہ ہو، حسد پیمانہ ہے دل عالم آب تماشا ہو، مبادا بے تکلف فصل کا برگ ونوا گم ہو، خشکی مے نے تلف کی، میکدے کی آبرو، رنگ طرب ہے صورت عہد وفاکرو، (ردیف ہ) رفتار سے شیرازہ اجزائے قدم باندھ، خلق ہے صفحہ عبرت سے سبق ناخواندہ، بسکہ مے پیتے ہیں ارباب فنا پوشیدہ، جز دل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ، جوش دل ہے نشہ ہائے فطرت بیدل نہ پوچھ، شکوہ وشکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ، ازمہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ، کلفت ربط ابن وآں غفلت مسدعا سمجھ، (ردیف ی) دل ہی نہیں کہ منت درباں اٹھائیے، ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے، غم دنیا سے گرپائی بھی فرصت سراٹھانے کی، بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی، پھونکتا ہے نالہ ہر شب صوراسرافیل کی، کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے، حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی، نگہ اس چشم کی افزوں کرے ہے ناتوانائی، کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے، درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے، سرگشتگی میں عالم ہستی کے یاس ہے، گرخامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے، نظر بہ نقص گدایاں کمال بے ادبی ہے، بسکہ زیرخاک با آب طراوت راہ ہے، بسکہ چشم از انتظار خوش خطاں بے نور ہے، رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے، ہے آرمیدگی میں نکوہش بحا مجھے، اے خیال وصل نادر ہے مے آشامی تری، ربط تمیز اعیاں درد مئے صدا ہے، ضبط سے جوں مردمک اسپند اقامت گیر ہے، گریاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے، ذوق بے پروا خراب وحشت تسخیر ہے، یہ سرنوشت میں میری ہے اشک افشانی، بے خود زبسکہ خاطر بے تاب ہوگئی، ہررنگ سوز پردہ یک ساز ہے مجھے، کہوں کیا گرمجوشی میکشی میں شعلہ رویاں کی، جنوں تہت کش تسکین نہ ہو، گوشادمانی کی، نکوہش ہے سزا فریادی بیداد دلبر کی، نگایار نے جب جب عرض تکیف شرارت کی، آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے، خدایا! دل کہاں تک دن بصد رنج وتعب کاٹے، ہوا جب حسن کم خط برعذار سادہ آتا ہے، بہ فکر حیرت رم آئنہ پرداز زانو ہے، خبر نگہ کونگہ چشم کو عدو جانے، دیکھ تری خوئے گرم دل بہ تپش رام ہے، ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے، ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے، تشنہ خون تماشا ہو جو وہ پانی مانگے، باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے، نہ ہوئی گرمرے مرنے سے تسلی نہ سہی، دل بیمار از خود رفتہ تصویر نہالی ہے، نشہ مے بے چمن دور چراغ کشتہ ہے، تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے، کاوش درد حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے گلشن کو تیری صبحت ازبسکہ خوش آئی ہے، دلا! عبث ہے تمنائے خاطر افروزی، محو آرامیدگی سامان بے تابی کرے، یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے، بہ نقص ظاہری رنگ کمال طبع پنہاں ہے، عاشق نقاب جلوہ جانانہ چاہیے، جہاں زندان موجستان دلہائے پریشاں ہے، صبح سے معلوم آثار ظہور شام ہے، ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے، اے خوشا وقتے کہ ساقی یگ خمستاں وا کرے، چاک کی خواہش اگروحشت بہ عریانی کرنے، چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے، خواب جمعیت محمل ہے پریشاں مجھ سے، بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے، ہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے، عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے، بسکہ حیرت سے زپاافتادہ زنہار ہے، تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے، شفق بہ دعوی عاشق گواہ رنگیں ہے، اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے، جوہر آئینہ ساں مژگاں بہ دل آسودہ ہے، بہ بزم مے پرستی حسرت تکلیف بے جا ہے، بہرپروردن سراسر لطف گسترسایہ ہے، چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے، فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے، عیادت بسکہ تجھ سے گرمی بازار بستر ہے، خطر ہے رشتہ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے، نوائے خفتہ الفت اگر بے تاب ہوجاوے، تاچند نازمسجد وبت خانہ کھینچیے، وہ مژہ برآہ رویانیدن از دل تیز ہے، دامان دل بہ وہم تماشا اے خوشا وقتے کہ ساقی یگ خمستاں وا کرے، چاک کی خواہش اگروحشت بہ عریانی کرنے، چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے، خواب جمعیت محمل ہے پریشاں مجھ سے، بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے، ہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے، عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے، بسکہ حیرت سے زپاافتادہ زنہار ہے، تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے، شفق بہ دعوی عاشق گواہ رنگیں ہے، اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے، جوہر آئینہ ساں مژگاں بہ دل آسودہ ہے، بہ بزم مے پرستی حسرت تکلیف بے جا ہے، بہرپروردن سراسر لطف گسترسایہ ہے، چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے، فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے، عیادت بسکہ تجھ سے گرمی بازار بستر ہے، خطر ہے رشتہ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے، نوائے خفتہ الفت اگر بے تاب ہوجاوے، تاچند نازمسجد وبت خانہ کھینچیے، وہ مژہ برآہ رویانیدن از دل تیز ہے، دامان دل بہ وہم تماشا نہ کھینچیے، زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے، ترجبیں رکھتی ہے شرم قطرہ سامانی مجھے، یاد ہے شادی میں عقد نالہ یا رب مجھے، بسکہ سودائے خیال زلف وحشت ناک ہے، زبسکہ

مشق تماشا جنوں علامت ہے، مژہ پہلوئے چشم اے جلوہ ادراک باقی ہے، شکل طاؤس گرفتاربنایاہے مجھے، شوخی مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے، خود فردشیہائے ہستی بسکہ جائے خندہ ہے، حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے ، جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی، جنوں رسوائی وارستگی زنجیربہتر ہے، وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی، دریوزہ سامان ہا اے بے سروسامانی، باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے، کوہ کے ہوں بارخاطر گرصدا ہوجائیے، داغ پشت دست عجز شعلہ خس بہ دنداں ہے، گریہ سرشاری شوقے بہ بیاباں زدہ ہے، خواب غفلت بہ کمیں گاہ نظرپنہاں ہے، مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے، غم وعشرت قدم بوس دل تسلیم آئیں ہے، دیکھنا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے، نظر پرستی و بے کاری وخود آرائی، کوششہمہ بے تاب تردد شکنی ہے، کاشانہ ہستی کہ بر انداختی ہے، گلستاں بے تکلف پیش یا افتادہ مضموںہے، منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے، گدائے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سے، جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے، حکم بے تابی نہیں اوعر آرمیدن منع ہے، قتل عشاق نہ غفلت کش تدبیر آوے، خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے ، چار سوئے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے، بے تابی یاد دوست ہم رنگ تسلی ہے، آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے، شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے، اگرگل حسن والفت کی بہم خوشیدنی جائے، سوختگاں کی خاک میں ریزش نقش داغ ہے، (رباعیات): بعد ازاتمام بزم عید اطفال، ہرچند کہ دوستی میں کامل ہونا، شب زلف ورخ عرق فشاں کا غم تھا، دل تھا کہ جوجان درد تمہید سہی، سامان ہزار جستجو یعنی دل، اے کاش بتاں کا خنجر سینہ شگاف، اے کثرت فہم بے شمار اندیشہ، دل سوز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج، گرجوہر امتیاز ہوتاہم میں، ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے، مشکل ہے زبس کلام میرااے دل۔

In Urdu

Hbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.