دیوان درد : خواجہ میر درد
Material type:
- 891.4391 د ر د 1988
Item type | Current library | Call number | Status | Barcode | |
---|---|---|---|---|---|
Book | NPT-Nazir Qaiser Library | 891.4391 د ر د 1988 (Browse shelf(Opens below)) | Available | NPT-012002 |
دیوان درد
(مقدمہ(1): آباواجداد خواجہ میر درد: خواجہ بہاؤالدین نقشبند، خواجہ محمد طاہر، خواجہ محمد صالح، خواجہ محمد یعقوب، خواجہ فتح اللہ خاں، نواب ظفر اللہ خاں، (2) خواجہ محمد ناصر عندلیب: پیدائش، نام و تخلص، خواجہ محمد زبیر سے ارادت، شاہ سعد اللہ گلشن، عندلیب کا مقام اورتصانیف، نالہ عندلیب، رسالہ ہوش افزا، دیوان عندلیب، خواجہ ناصر عندلیب کی شادیاں اور اولاد، عندلیب کی وفات، (3) حالات خواجہ میر درد: نام، نسبت محمدی، تخلص، پیدائش، تعلیم وتربیت، سپہ گری و ترک علائق، عقیدت وارادت، موسیقی اور سماع، درد کی سجادہ نشینی، دردکا مذہب، درد کی عیسر الحالی، خواجہ میردرد اور دلی، تذکرہ نگاروں کی گلہائے عقیدت، معاصرین، درد کے بعد کے تذکرہ نگار، درد کی وفات، خواجہ میر درد کی اولاد، خواجہ میر درد کی جانشینی، (4) شاگردان خواجہ میر درد: خواجہ میر درد کے ہندو تلامذہ: (5) جائزہ تصانیف خواجہ میر درد: (6) دیوان اردو: درد کے وہ اشعار جو شامل دیوان نہیں ہیں، (7) تبصرہ: حقائق ومعارف اوراسرار تصوف، بے ثباتی کائنات، واردات قلبیہ، معاملہ بندی، شوخی رندانہ و شبابیات عاشقانہ، حسرت ویاس، خلش عشق، خمریات و امرد پرستی، تشبیہ و استعارات، محاورات، محاکات و منظر کشی، ضرب الامثال مصرعے، سادہ اور پرتاثیر کلام، متفرق اشعار، (8) درد، میراور سودا کی ہم طرح غزلیں: پہلی غزل، دوسری غزل، تیسری غزل، چوتھی غزل، (9) طباعت کلام درد: (10) اختتامیہ (11) موجودہ نسخے کی تصحیح وترتیب، (غزلیات (ردیف الف) پہلا مصرع) (1) مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا، دونوں جہان کو روشن کرتا ہے نورتیرا، مدرسہ تھا یا دیریا کعبہ یا بت خانہ تھا، کبھی خوش بھی کیا ہے دل کسی رند شرابی کا، جان پر کھیلا ہوں میں میرا جگر دیکھنا، اکسیر پر مہوس اتنا نہ ناز کرنا، مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام دیکھا، عاشق بیدل ترا یاں تک تو جی سے سیر تھا، کام یاں جس نے جو کہ ٹھہرایا، اگریوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا، جی میں ہے سیر عدم کیجے گا، ہم نے کس رات نالہ سرنہ کیا، قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا، جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا، تو اپنے دل سے غیر کی الفت نہ کھو سکا، انداذہ وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا، دل کس کی چشم مست کا سرشار ہوگیا، تم نے تو ایک دن بھی نہ ایدھر گزرکیا، شب گزری اور آفتاب نکلا، مانند فلک دل متوطن ہے سفرکا، ٹھیر جا ٹک بات کی بات اے صبا، کھلا دروازہ میرے دل پہ ازبس اور عالم کا، سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا، دنیا میں کون کون نہ یک بار ہوگیا، تجھی کو جویاں جلوہ فرما نہ دیکھا، نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشام ہے شیشہ، تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا، یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا، بظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا، اپنا تو نہیں یار میں کچھ یا رہوں تیرا، تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جان ملے گا، سحر ہوتے ہی اٹھ کر وہ جو گھر سے باہر آنکلا، ترے کہنے سے میں از بس کہ باہر ہونہیں سکتا، جب تک ہے دل کے شیشے میں رنگ امتیاز کا، گل و گلزار خوش خیال آتا، بھرا مے سے نہیںِ، یہ نور سے معمور ہے شیشا، اے شانہ تو نہ ہو جو دشمن ہمارے جی کا، توہی نہ اگر ملا کرے گا، اہل زمانہ آگے بھی تھے اور زمانہ تھا، حال یہ کچھ تو ہے اب دل کی توانائی کا، کہاں کا ساقی اور مینا کدھرکا جام وے خانہ، اے شمع روز بسکہ ترا انتظار تھا، وہ دن کدھرگئے کہ ہمیں بھی فراغ تھا، زلفوں میں کسو کی جو گرفتار نہ ہوتا، ایک توہوں شکستہ دل ، تس پہ یہ جور یہ تھا، جلوہ تو ہر ایک طرح کا پرشان میںدیکھا، ناصح! میں دین ول کے تئیں اب تو کھو چکا، مذکور جانے بھی دو ہم دل تپیدگاں کا افراد (ردیف ب) تھا عدم میں ابھی مجھے اک پیچ وتاب، (ردیف ت) وہ مو کمر کہیں تو ہوا بے حجاب رات، زاہد اگر نہیں کی تو نے کسی سے بیعت، (ردیف چ) جائیے کسی واسطے اے درد مے خانے کےبیچ، مذکور جب چلے ہے مرا انجمن کے بیچ فرد، (دریف د) کیوں کر میں خاک ڈالوں سوز دل تپاں پر، ساقی ہے چڑھا آج تو یہ رنگ ہوا پر، اُس قدرتھا یا کرم یا ظلم رانی اس قدر، مشہور خلق میں نہیں اپنے کمال کر فرد، (دریف ز): کیا ہوا مرگئے آرام ہے دشوار ہنوز، لیتا نہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز، کوہ کن سے نہ بول اے پرویز فرد، (ردیف س) نہ کیا تو نے ایک بار افسوس، (ردیف ط) کرتا رہا میں دیدہ گریاں کی احتیاط، (ردیف غ) لایا نہ تھا تو آج تلک ہاتھ سوے تیغ، (دریف ف) اے درد ایک خلق ہے جانانہ کی طرف، (ردیف ک) پیغام یا بھیج نہ مجے بے قرار تک، پھرتا رہا میں سعی میں ایک عمر جاں فلک، نہیں میرے تئیں کسی کا باک، (ردیف ل)س کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل، بارے یہ داغ عشق ہوا شہریار دل، حیراں آئینہ وار ہیں ہم، اب کے ترے در سے گرگئے ہم، کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم، چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم ترشبنم، کیا کہیں سوئے فنا کس طور کرجاتے ہیں ہم فرد، (دریف ن) گلیم بخت سیہ سایہ داررکھتے ہیں، مژگان ترہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں، آہ مشتاق ترےمفت موے جاتے ہیں، گردیکھیے تو مظہر آثار بقا ہوں، نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں، تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں، ہرچند تیری مست سوا راہ ہی نہیں، ہستی ہے جب تک ہم ہیں اس اضطراب میں ، ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں، یہ زلف بتاں کا گرفتارمیںہوں، اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کرکہیں، اس کو سکھلائی یہ جفا تو نہیں، بے زباں ہے بدہ زباں سوسن، باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں، جمع میں افراد عالم ایک ہیں، نہ ہم کچھ آپ طلب نے تلاش کرتے ہیں، کام مردوں کے جو ہیں وہی کرجاتے ہیں، اپنی قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں، مرتانہیں ہوں کچھ میں اس سخت دل کے ہاتھوں، جی نہ اُٹھوں کہیں پھر میں جو تومارے دامن، کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدہ ترپانی میں، معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ بہی ہیں، گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن
ملاقاتیں کہاں، مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے، یہ بتا مجھے تو کہان نہیں، دل کو لے جاتی ہیں، معشوقوں کی خوش اسلوبیاں، نزع میں تو ہوں ولے تیرا گلہ کرتا نہیں، پڑے جوں سایہ ہم تجھ بن ادھر اودھر بھٹکتے ہیں، آہ پر وہ تو کوئی مانع دیدار نہیں، اے ہجر کوئی شب نہں جس کی سحرنہیں، مرے ہاتھوں کے ہاتھوں اے عزیزاں، گرچہ ہم مردہ دل اے جان جہاں جیتے ہیں، دل تو سمجھائے سمجھتا بھی نہیں، میں تو سب باتیںنصیحت کی کہیں، آگے ہی بن سنے تو کہے ہے نہیں نہیں، وہ نگاہیں جو پارہوتی ہیں، اگر میں نکتہ رسی سے ترا دہاں پاؤن دل میں رہتے ہو پر آنکھوں دیکھنا مقدور نہیں، زلفوں میں تو سد ا سے یہ کج ادائیاں ہیں،، سیر کی دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں، کب دہن میں ترے سمائے سخن، کہیں ہوئے ہیں سوال وجواب آنکھوں می، ہر دم بتوں کی صورت رکھتا ہے دل نظر میں، (اشعار متفرق) (ردیف و) مانع نہیں ہم وہ بت خود کام کہیں ہو، کیا فرق داغ وگل میں کہ جس گل میں ہو نہ ہو، سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الہی کو، مجلس میں بارہووے نہ شمع و چراغ کو، مست ہون پیر مغاں کیا مجھ کو فرماتاہے تو، ملاؤں کس کی آنکھوں سے کہو اس چشم حیراں کو، نہ مطلب ہے گدائی سے نہ یہ خواہش کہ شاہی ہو، اے درد یاں کسو سے نہ دل کو پھنسائیو، اپنے بندے پہ جو کچھ چاہو سوبیداد کرو، کہنا ٹک اشتیاق تو رفتار یارکو، کہنا ٹک اشتیاق تو رفتار یارکو، سررشتہ نگاہ تغافل نہ توڑیو، دے لے جو کچھ کہ شیشے میں باقی شراب ہو، کبھو ہم نے نہ پایا مہرباں اے تندخو تجھ کو، قطعہ، فرد (ردیف ہ) ہرطرح زمانے کے ہاتھوں ہوں ستم دیدہ، رکھتی ہے میرے غنچہ دل میں وطن گرہ، ربط ہے ناز بتاں کو تومری جان کے ساتھ، کا ش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ، دل پہ بے اختیار ہو کر آہ، جوں جرس دل کے ساتھ میرے آہ، دل سوا کس کو ہو اس زلف گرہ گیر ہیں راہ، بیگانہ گرنظر پڑے تو آشنا کو دیکھ، (ردیف ی) اس کی بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے، آفت جان و دل تو یاں، وہ بت خود فروش ہے، دل مرا پھر دکھا دی کس نے، اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے، وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھادے، گرباغ میں خنداں وہ مرا لب شکر آوے، ازیت کوئی تیرے دم کی میرے جی سے جاتی ہے، چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہووے تو ٹل سکے، ارض وسما کہاں تری وسعت کرپا سکے، قسم ہے حضرت دل ہی کے آستانے کی، کوئی بھی دوا اپنے تئیں راس نہیں ہے، یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے، آتش عشق جی جلاتی ہے، ہے غلط گرگمان میں کچھ ہے، آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سوگئے، جوں سخن اب یاد اک عالم رہے، بلبل نہ ہرآئے باغناں سے، نہ ہاتھ اُٹھائے فلک گو ہمارے کینے سے، جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی، فرصت زندگی کم ہے، دل مرا باغ دل کشا ہے مجھے، یارو مرا شکوہ ہی بھلا کیجیے اُس سے، سرسبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے، مرا جی ہے جب تک تیری جستجو ہے، روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے، کب ترا دیوانہ آوے قید میں تدبیر سے، ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے، گر خاک مری سرمہ ابصار نہ ہووے، دیا ہے کس کی نظر نے یہ اعتبار مجھے، فرض کیا کہ اے ہوس، یک دو قدم ہی باغ ہے، اپنے تئیں ت ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے، لحظہ یہ لحظہ یاں نیا داغ پر اورداغ ہے، پھنسیے کسی کی زلف میں کب یہ ہمیں فراغ ہے، پہلو میں دل تپاں نہیں ہے، عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے، بہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے، دشنام دے ہے غیر کو تو جان کرمجھے، یاں غیب کے جلوے کے تئیں جلوہ گری ہے، مجھ کو تھھ سے جو کچھ محبت ہے، گل اگر سنکھ ہو بعضے بھید کھچ کہہ کرگئے، شخ و عکس اس آئنے میں جلوہ فرما ہوگئے، تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے، بات جب آندان پڑتی ہے، اک آن سنبھلتے نہیں اب میرے سنبھالے، غیر جو بے فائدہ ہاتھوں پہ گل کھایا کیے،ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا کہیں کیا جی کو رو بیٹھے، جویاں دوچاہنے الے قریب یک دگر بیٹھے، کبھی تو بے وفائی یا د آجی کو ڈراتی ہے، ہر گھڑی ڈھانپنا چھپانا ہے، دل تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی، کیف و کم کو دیکھ اُسے بے کیف و کم کہنے لگے، دشوار ہوتی ظالم تجھ کو بھی نیند آئی، دل پہ آفت ندان ہے پیارے) دوسرامصری) تیری گلی میں نہ چلوں اور صبا چلے، جتنی بڑھتی ہے اُتنی گھٹتی ہے، گرنام عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے، آہستہ گزریوں تو صبا کوئے یار سے، دیکھ لوں گا میں اسے دیکھیے مرتے مرتے، آیا ہے ابر اور چمن میں بہارہے، مدت ہوئی کہ ویسی عنایات رہ گئی، گرچہ بیزار تو ہے پر اُسے کچھ پیار بھی ہے، جب نظر سے بہار گزرے ہے، تو چونکتا عبث ہے کسی بات کے لیے، غم ناکی، بیہودہ رونے کو ڈبوتی ہے، جو ملنا ہے مل پھر کہاں زندگانی، درد اپنے حال سے تجھے آگاہ کیا کرے، آنکھوں کی راہ ہر دم اب خون دل رواں ہے، دل تڑپتا ہے درد پہلوہے، ہستی ہے سفر، عدم وطن ہے، نہ وو نالوں کی شورش ہے ن آہوں کی ہے وو دھونی، تو اس قدر جو اُس کا مشتاق ہو رہا ہے، کس کے تئیں نہ دیکھیے، کس پہ نگاہ کیجیے، نے وہ بہا رواں ہے نہ یان ہم جواں رہے، اگرآہ بھرے اثر شرط ہے، لخت جگر سب آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئے، یہ زاہد کب خطا سے بے خطر ہے، کروں کس کے ساتھ اے شرر گرم جوشی، جگر پہ داغ نے میرے یہ گل فشانی کی، دل سمت سینہ یا طرف سرکو منہ کرے، مٹ اٹکیو تو اس میں کہ مشہود کون ہے، اک خلق سیہ مست مئے بے خبری ہے، جان تو اک جہان رکھتا ہے، نہیں چھوڑتی قید ہستی مجھے، کیا جانیے کیا دل پہ مصیبت یہ پڑی ہے، بس ہے یہی مزار پہ میرے کہ گاہ گاہ ، جائے چراغ کوئی دل مہربان جلے، آیا نہ چین جی کو نہ دل سے تپک گئی، دل ہی یہ بے قرار نہ ہووے تو کیا کرے، نہ ملیے یار سے دل کو تو کب آرام ہوتا ہے، یہی پیغام درد کا کہنا۔ گو کوئی کوے یار سے گزرے، ہمارے جامہ تن میں کچھ اور بس باقی، گل رخوں کا بحرو برمیں جو کہ ہے، مدہوش ہے، گرجان ہے توجان کے آزاد ساتھ ہے،
پوچھومت قافلہ عشق کدھر جاتا ہے، گرمعرفت کا چشم بصیرت میں نور ہے، نہ کچھ غیر سے کام، نے یار سے، غیر اس کوچے میں اب دیکھا تو کم آنے لگے، باب فردیات، رباعیات متفرق، رباعی مستزاد، کیسی تم کو بھاوت ہیں اور کیسی تو سکھ پاوت ہیں (مخمسات): باطن سے جھنوں کے تئیں خبرہے، ہم وحشیوں کی دل میں کچھ اور ہی آمنگ ہے، کئی قیمت میں اس کے پاس نقد دین کو لائے، ستاتی ہے مجھے پر لحظہ کج ادائی دوت، (ترکیب بند): شاہنستہ ملک کفرودیں تو۔
In Urdu
Hbk.
There are no comments on this title.