برف کی شہزادی : پیرس کا منظوم سفرنامہ شاہدہ لطیف
Material type:
TextPublication details: Lahore : Al-Hamd Publications, 2004.Description: 144 pagesSubject(s): DDC classification: - 891.4391 ش ا ہ 2004
| Item type | Current library | Call number | Status | Barcode | |
|---|---|---|---|---|---|
| Book | NPT-Nazir Qaiser Library | 891.4391 ش ا ہ 2004 (Browse shelf(Opens below)) | Available | NPT-002488 |
Browsing NPT-Nazir Qaiser Library shelves Close shelf browser (Hides shelf browser)
| No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | ||
| 891.4391 ش ا ہ 1986 کلیات شاہ نصیر جلد سوم : | 891.4391 ش ا ہ 1988 کلیات شاہ نصیر جلد چہارم : | 891.4391 ش ا ہ 1999 کراچی میں اردو غزل اور نظم : | 891.4391 ش ا ہ 2004 برف کی شہزادی : پیرس کا منظوم سفرنامہ | 891.4391 ش ب ل شعرالعجم۔ حصہ۔ سوم : | 891.4391 ش ب ل شعرالعجم۔ حصہ چہارم : | 891.4391 ش ب ن 2005 خواتین کی شاعری میں عورتوں کے مسائل کی تصویر کشی : 1947-2002 |
برف کی شہزادی ، سفر کی دعا، دعوت نامہ، سفارت کار یونیک یراغ، وطن سے روانگی، تحفہ محبت، تقریب سے خطاب، ارض فرانس کے نام، انقلاب فرانس، پیرس میں اہل ادب، پیرس کی تاریخ، وطن کا نغمہ، کشمیر کے لیے انصاف، سفیر پاکستان، بیتی وطن کی، پاکستانیت، منطق، سفر درپیش ہے منزل کہاں ہے، پاکستان اور پیرس کاچاند، پیرس کے چہرے، ایک خیال، فرانس کے لوگ، سودوزیاں، پیرس اور پاکستان کے منسٹرز، سفر میں ستارے مرے ہم قدم تھے، یہاں کی عورت، پیرس کے بچے، کچھ ایسے لمحے ہیں، زنجیر نہں ہوتے، اک اک لمحمہ مرجاتاہے، آگہی کا سفر، پیغام، ہم نے کتنے کہے ہیں، تسخیر، حکایت جو ہم سے لکھی جارہی ہے، تمنا ، مہذب کتے، ایفل ٹاور، سرگاہیں، پیرس کے گلی کوچے، وطن کی یاد، فاصلے، ایک خط، پیرس کے حسین چہرے، سوال، شانزے لیزے، میرے وطن کے محنت کش، میرے وطن کے مزردور، بہت سے کام رہتے ہیں، ریلوے اسٹیشن پر، سیکس شالپس، جسم اور جذبات، محبت فاتح عالم، خوشبو اور روشنی، کوئی آرزو مرےساتھ ہے، ترے راستے کے تارے، سفر کے بعد بھی گویا سفر ہے، سفر، مری زندگی کی کہانی ہے کیسے، سفر کی شام کواپنی غزل میں ڈھال دیا، کہانی خوب صورت ہورہی ہے، پذیرائی، تو اپنی عظمتوں کے حوالے نہ دے مجھے، ہمیں جو اپنےشجر سے ثمر نہیں ملتا، قید وفا سے اذن رہائی نہیں دیا، جیسے سلگتی ریت پہ اک بوند آب کی، کسی سے کہہ نہ سکے حال زار ایسا تھا، تنہائی اے سرد ہوا، دل کی جلن اور بڑھے گی، سفر سفر ہے، کتنی محبتوں سے پکارا گیا ہمیں، دشت ہے سوالوں کا، چہرےبدل رہے ہیں، شام جزیرے پر جب سورج اترے گا میرے پاکستان جیسا، ایک دعا، راہ طلب کے ہمسفر، ہوا میں اس کی خوشبو آرہی ہے، اب اس قدر بھی نمایاں نہ ہر خبر میں رہو، اس دل کو تیری یاد سے آباد کیا ہے، اس کے چہرے ساکہاں دوسرا چہرہ ہوگا، یہ روز وشب کے سارے سلسلے سب ایک جیسے ہیں، بہت مہکی ہوتی ہے شب تمہاری یاد بھی آتی، یہ ایسا بھیدے کھلتا نہیں ہے رازداروں سے، نہیں اچھا کوئی مبہم اشارا، صاف کہہ دو ناں، تم ہم کو اگر مورد الزام رکھو گے، بنا کر کانچ کا بت وہ اچانک توڑ دیتا ہے، جھوٹی رفاقتوں کو نبھانا بھی چھوڑ دے، تیرک کرنوں کا حوالہ نہیں دے گا تجھ کو، اپنے غم والم کا فسانہ بھی ٹھیک ہے، کوئی ہمسفر جوملا نہیں، تم تو نہیں کسی کے ، مگر ہم ضرور ہیں، دلوں کا بھید یہ راز جدائی ہو بھی سکتا تھا، تتلیاں سی اڑی ہیں فضا میں، ہجر کی رات، احساس جدائی کا اسے ہونہیں سکتا، سمندر پھرسے وحشی ہورہاہے، وہ زمانے کو کبھی پیار نہیں دے سکتے، اجڑے ہوئے دلوں کے سہارے نہ کر تلاش، سرد ہوا کا گیت، خواب، بہت بڑے تھے تمہارا بھی حال دیکھ لیا، ہرعکس کو تصویر ابر وباد بھی، ہوائیں لائی ہے گلشن سے پھر پیام ترا، کسی نے نام پوچھا تھا ہمارا ایک دن ہم سے، کسی بھی گام پہ ہم نے انا نہیں چھوڑی، تمہارا یاد کا سایہ گھیرا ہو کہ نہ ہو، بے لوث کس قدر تھے تمہیں یاد آئے گا، سفر میں کوئی ستارا سنبھال کررکھتے، آرام کی خواہش کی تمنا بھی نہیں ہے، کوئی راہ سفر ملتی نہیں ہے، دامن مجھے اشکوں سے بھگونا نہیں آیا، مدت سے مرا دل جو ٹھکانے پہ نہیں ہے، مرے اجنبی کبھی سوچنا، خوابوں کا اک دیار سفر میں گزرگیا، جدا مٹی جد اخوشبو، اپنا گھر، اہل پیرس، وطن کا احساس، وطن کی یاد کی شدت، ستارا سفر کا، توصیف، الوداع! سرزمین فرانس، احسان تشکر۔
In Urdu
Hbk.
There are no comments on this title.