دیوان مجروح : مجروح، میر مہدی حسین
Material type:
- 891.4391 م ج ر 1978
Item type | Current library | Call number | Status | Barcode | |
---|---|---|---|---|---|
Book | NPT-Nazir Qaiser Library | 891.4391 م ج ر 1978 (Browse shelf(Opens below)) | Available | NPT-001778 |
Browsing NPT-Nazir Qaiser Library shelves Close shelf browser (Hides shelf browser)
No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | ||
891.4391 گ ی ل 1987 سیدنا : | 891.4391 گ ی ل 2003 کہر کے اس پار : | 891.4391 م ب ا 1965 زمانہ عدالت نہیں : اور دوسری نظمیں | 891.4391 م ج ر 1978 دیوان مجروح : | 891.4391 م ج ر 2003 کلیات مجروح سلطان پوری : | 891.4391 م ح س 1989 مشعل جاں : | 891.4391 م ح س 2003 اڑان : |
دیوان میر مہدی مجروح
بسم اللہ (تمہید) سبب تالیف، نعت: تعالٰی اللہ ہوا قرب خدا بھی اور اُس حد کا، مثنوی گل صد برگ در مناقب حضرت حسنی رضی اللہ عنہ، لوموسم گل ہوا جہاں گیر، قصیدہ در مدح امام مہدی رضی اللہ عنہ، خاک ہوں گو جگر ودل مگر اے ضبط فغاں، درمناقب حضرت موصوف الذکر، گل کھل رہے ہیں باغ میں جوش بہار ہے، درمناقب ممدوح الصدر: باد گل بو و عطربار ہے آج، درمناقب حضرت ممدوح، اپنا جوہر یہ کیا باد بہاری نے عیاں، قصیدہ درمدح مہاراجہ ریاست الور: یہ توبہ لب پہ کیا آنے کے دن ہیں! ایضاً درمدح مہاراجہ ممدوح الصدر: کچھ نئے رنگ سے اس فصل میں ہے جوش بہار، قصیدہ درمدح جناب نواب رام پور: بہارآئی ہوا عالم معطر، (غزلیات): دریف الف: فاتح کارجہاں نام ہے یزداں تیرا، ثنا رے نور روئے تجلی نقاب کا، ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا، وصف کیا ہو بیاں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ، ہے فلک آستاں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا، یاں کیوں نہ سائبان ہو نور الہ کا، لیا جب نام ہمنام خدا کا، یہ دل شائق ہے اس کے روئے روشن کی زیارت کا، کوئی آسماں کیا سوا ہوگیا، وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہوگا؟ نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا موسی نہ غش میں آئیو اک بار دیکھنا، بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا، آنا ترا یہاں نہ مروت سے دورتھا، بہتر یہ ہے کہ اس کا نہ انداذ دیکھنا، غیروں کا بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا، ہجر میں طرفہ ماجرا دیکھا، گوہر اک حال ہے واں ہم سے چھپایا جاتا، عدو پر ہے یہ لطف دم بدم کیا؟ کل نشے میں تھا وہ بت مسجد میں گر آجاتا، تصور رخ جاناں میںشب یہ حال ہوا، چھپانا ان سے دل کو فائدہ کیا؟ (ردیف ب) اُس سے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب، مانگیں نہ ہم بہشت، نہ ہو واں اگر شراب، حرف رخصت لب شیریں پہ نہ لانا صاحب، (دریف پ) لڑکے اعیار سے جدا ہیں آپ، (دریف ت) محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، عطر ریحان رسالت، ابھی موجود ہے دار محبت، ایذا ہی دردہجر سے پائی تمام رات، غیرسے ملیے نہ صاحب سحر و شام بہت، اپنی ہستی ہے خواب کی صورت، منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت، ہے یہ جان نزار کی صورت، نہیں اچھی الگ جانے کی عادت،(دریف ٹ): دل کو میرے اُڑا لیا جھٹ پٹ، (دریف ث)فکر تعمیر سقف و خانہ عبث،(دریف ج):شب مہ روشنی فشاں ہے آج، جوش پر ابر نوبہار ہے آج، (دریف چ): بس ہے اک چشم غضب قتل کو تلوار نہ کھینچ، (دریف ح) خوب دیکھی ہے اس جہاں کی طرح، (دریف خ)گو آپ کے بھی ہاتھ کا ہے رنگ حنا سرخ، (دریف د) شب معراج میں تشریف جولائے احمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، نہ لیں شاہی غلامان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ہے اب تو سامنے آنکھوں کے ہر زماں صیاد، دل نہ کس طرح سے کرے فریاد، (دریف ذ) بے دیے بوسہ نہیں آپ کا دشنام لذیذ، (دریف ر) صلٰوۃ اُس سرور صلی اللہ علیہ والہ وسلم والا گُہر پر، ان کے پڑتے ہیں مجھ پہ بے تقصیر، توجہ کیا ہو مجھ گوشہ نشیں پر، اس کے ہیں جھانکے کے یہ آثار، دشمن جان ہوئے ہیں وہ مری جاں ہوکر، دل بے صبر میں ہے غم کا گزار، (دریف ڑ) ایک سے ربط، ایک سے ہے بگاڑ،(دریف ز) حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز، کون پردے میں ہے یہ زمزمہ ساز، (دریف س) یوں ہی گزرا بہار کا یہ برس، (دریف ش) کس کی بو تھی نسیم کے ہم دوش، (دریف ص) اس کا غیروں سے اب بڑھا اخلاص، (دریف ض) جو کہ میخانے میں آئے کچھ نہ کچھ وہ پائے فیض، (دریف ط) لخت دل کو ہے مرے چشم گہربار سے ربط، (دریف ظ) اُس سے مل کر کبھی نہ پایا خط، (دریف ع) اُس شعلہ رو کے سامنے کس طرح جائے شمع؟ (دریف غ) سچ ہے دل کش تو ہے تفرح باغ (دریف ف) نہ تومے میں ہے نہ وہ شاعر سرشارمیں لطف، (دریف ق) شیخ تم جانتے ہو کیا ہے عشق؟ (دریف ک) گلہ کیوں غیر کا آیا زباں تک ؟ ہم کو وحشت نے کردیا بے باک، پہنچ کیونکر ہو اپنی اس کے گھر تک، (دریف ل) نہیں راز ہستی جتانے کے قابل، ذرا بہلائیے آکر یہاں دل (دریف م) یا علی رضی اللہ عنہ نائب خدا ہو تم، اثر آہ کا گرد دکھائیں گے ہم میرے دل میں تو ہرزماں ہو تم، (دریف ن) لوگ حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رسول دوسرا کہتے ہیں، بیٹھو ادب سے، ہرزہ سرا ہو یہاں نہیں، اسیر رنج میںِ ، یا شاہ ذوالفقار ، ہوں میں، نہ وہ برق میں ہے نہ سیماب میں، ہے ہم شبیہ شکل، مگر دیدہ ورکہاں، آہ دل سوز نہیں، نالہ شرر بار نہیں، بیکار اس نگاہ کا گر نیشتر نہیںِ، خیال روئے آتش ناک ہے اس دیدہ تر میں، یہ بے چینیاں سر اُٹھائے ہوئے ہیں، کیا کہوں آفتیں جو چاہ میں ہیں ، کیازلیخا ہو خوش گلستاں میں، سدا عروج پہ مانند حسن یار ہوں میں، ہم تو جلتے ہیں خبر تک بھی ذرا واں تو نہیں، جس نے دن عیش میں گزریں وہ سر انجام نہیںِ ، ہررنگ میں بخش ہی کی پاتا ہوں ادا میں، خانماں سوز ماسوا ہوں میں، جوش وحشت میں مزا کچھ سرو ساماں میں نہیں، گریباں چاک ہے گل بوستاں میں، میری بدخوئی کے بہائے ہیں، کب ہو شوخی سے باز آتے ہیں ، بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں، میں آہ ہوں تو خون جگرمیں طپیدہ ہوں، دل کی بے چینیاں گئیں نہ کہیں، آج نکلا جو آفتاب نہیں، وہ گالیوں کی چھیڑ وہ طرار پن کہاں؟ شغل اُلفت کو جو احباب برا کہتے ہیں، ہم جو برسوں میں کبھی آتے ہیں، نہیں غیر کو ہیں ستانے کی باتیں، کیا غصے میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلا میں، ہے ازبسکہ بیگانگی یار میں، کب شعلہ خیز نالہ آتش فشاں نہیں، نقص نکلیں گے ماہ کامل میں، لے کے دل اور تم کو کام نہیں، غضب میں قہر میں جور و جفا میں، دل سوزاں میں کیا آئے ہوئے ہیں، دل میں قوت جگر میں تاب کہاں، جانا زبس ضرورتھا اس جلوہ گاہ میں، یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں، جگر برشتہ نہیں ، آہ شعلہ تاب نہیں، اس سے رہتی جو چار آنکھیں ہیں، مگرکام میرا ادا دیکھتے ہیں، ان کی باتوں پہ نہ جاؤ کہ یہ کیا جانتے ہیں، غبار خاطر دل دار ہوں میں،
خرابی خواہ وہ ہیں شاد ہوں میں، دکھ دیے جاؤ یاں گریز نہیں، کھٹکا رہا سحر کا شب وصل یار میں، (دریف و) جبہہ سائی درعرش معلٰی دیکھو، نوید امن ہے اہل جہاں کو، کس سے تسکین دل ناشاد ہو، اگر ہے برسر مہر آسماں ہو، سانس بھی لیں نہ جس کا یہ ڈر ہو، دل درد آشنا دیا ہم کو کام واں کیا حصول اپنا ہو، اس کے جوجو کہ فوائد ہیں خود دیکھتے جاؤ، تم یہ کیسے بلند ہمت ہو، نہیں ممکن کہ وصل جاناں ہو، سمجھا ہے وہ اپنا سارخ رشک قمر کو (دریف ہ) خاتم انبیاء رسول صلی اللہ علیہ والہ والہ وسلم اللہ، سایہ ہو کسطرح لب معجز نما کے ساتھ، غموں کے زور جان زار سے پوچھ، چھپ کے میں نے نہ پھر دکھایا منہ، (دریف ی) شب معراج شاہ انس و جاں ہے، بشر کا کس کو حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر گماں ہے، یہ روز مولد سلطان دیں ہے، کیا کہوں میں کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نورذات کبریا ہے، درخیر الوراء پہ جا جلدی، جس نے اے خیر الوراء دیکھاتجھے، آقا علی رضی اللہ عنہ، مطاع علی رضی اللہ عنہ مقتداء علی رضی اللہ عنہ، گوہر تاج انمسا ہے علی رضی اللہ عنہ، نجف میں رہے کربلا میں رہے، کیا حال دل اس شوخ ستم گر سے کہا جائے، خوشی سے کب یہاں آنے کی جا ہے، مزہ ہم کو ملتا ہے تکرار سے، نیچی نظروں کے وار آنے لگے، ذبح کرڈالا مجھے رفتار سے، پھول جھڑتے ہیں زبس گفتار سے، نہ کیوں تیرنظر گزرے جگر سے، وہ کہاں جلوہ جاں بخش بتان دہلی، ان آنکھوں نے ایسا جھکایا مجھے، درد ہجراں مگر فزوں تر ہے، کمر کے وصف میں قاصر زباں ہے، جس کے دوزخ بھی خوشہ چیں میں ہے، لاکھ غم میں ہے سو محن میں ہے، ہم اپنا جوقصہ سنانے لگے، قتل کرنا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے، وہ یہاں آتے ہیں کسی اندازسے، کہہ تو دے جا کر کوئی فرہاد سے، یہ جو اب لطف زبانی اور ہے، کٹتی ہے یوں رہ اُلفت میری، گہے الفت سے دیکھا گاہ کیں سے، رہے گی نہ بے آفت آئے ہوئے، سدا میرے درپے ہیں آزاد کے، دیکھ جلوے تمہارے قامت کے، مشوش جو نہ فکر جاہ میں ہے، بہت کچھ دھوم ہے روز جزا کی، جفا عادت کہاں تھی آسماں کی، کچھ ان بن ہو چلی ہے باغباں سے، غم سے چھٹ جانے کی حکمت سے سہی، کیوں منہ چھپا ہے کس لیے اتنا حجاب ہے ؟ آگے سے ذرا اس ستم آرا کے گزر جائے، منہ چھپانے لگے حیا کرکے، ابھی ہے صدمہ ہجراں کی گفتگو باقی، جنس ناقص ہوں نہ لاؤ سر بازار مجھے، پھر تو معدوم زمانے ہی سے مرنا ہوجائے، جھیلتے کاوش مژگان ستم گار رہے، دل لگا اس عدوے جانی ہے، ہون خوشی کیوں نہ جان جانے سے، جو کہ غیروں کو آشنا جانے، جس کا رو ہے وجہ حیرانی مری، دوا کچھ نہیں تیرے بیمار کی، جزعرض حال گو کوئی چارہ نہیں مجھے، وہ ہیں طالب تو پوچھنا کیا ہے، سر کو تن سے مرے جدا کیجیے، اب ضعف سے نہ پوچھو جوکچھ میر ا حال ہے، نغمہ ساز سناتا ہے جو دم ساز مجھے، پاک آئے غرق عصیاں ہو چلے، مجھے اور غیر کو باہم لڑا کے، لگی رہتی ہے ہردم اس کے پا سے، نہ کیا عرض مسدعا مل کے، واہ! کس درجہ کی جفا تو نے، جس کو خورشید نے نہ کچھ کم کی، یاں کس کو خوشی رہتی ہے اعداء کی خبر کی، لوصحبت اعداء نے کیا اور اثر بھی، جان لی اس نے یاں دھرا کیا ہے ؟ عشق میرا بڑھائے جاتاہے، یہ شوخی سے اس کی نظر ہوگئی، تراچھوڑ کر جو کہ درجائیں گے ، ہے نشاں یا کہ بے نشاں میں ہے، پرزہ گردی میں ز بس وہ بت ہرجائی ہے، غیر بدظن سے یہ نہاں ہی سہی، جمال شاہد مقصد کہیں دکھا ساقی، (مخمسات): خمسہ بر غزل قدسی رحمتہ اللہ، اے شہ کون ومکاں تو ہے وہ ذی شان نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خمسہ برغزل میر تقی صاحب میر: شب و روز ہی وصل منظور ہے، خمسہ بر غزل میر ممنون صاحب: اس کے ہاتھوں تک رسائی ہوچکی، خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب: کام نخوت سے کچھ روا نہ ہوا، خمسہ برغزل میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب: لاتقنطو نوید ہے الکتاب میں، خمسہ برغزل حکیم مومن خان صاحب: اس کی تو شوخیاں نہیں آتیں حساب میں، (ترجیع بند): دروفات میرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب مرحوم: کیوں نہ ویران ہو دیار سخن، درمناقب حضرت علی مرتضی علیہ التحیۃ والسلام : ہے قدیمی یہ ہر اک اہل ہنر کا دشمن۔ (رباعیات) قطعات: عرض دعائیہ بہ امام وقت، قدیم رنجہ فرمایئے یاامام تارٰک دیوان غالب، ذغم بسکہ آشفتہ ساماں شدم، قطعہ درمدح حکیم عبد المجید خاں صاحب، س ہیں جو عبد المجید خاں صاحب، قطعہ دیگر عطیہ خطاب از جانب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند: ہیں عبد مجید خان ذی شاں، تاریخ وفات میر اشرف علی صاحب: میر اشرف علی ،دہلی زاد، قطعہ مسجد نرورعلاقہ گوانیار: بشیر الدین احمد خاں کہ دادند، تاریخ وفات فخرالدین خاں صاحب، خان والا نژاد فخرالدین ، تاریخ مسجد تعمیر کردہ جناب حکیم سلیم خاں صاحب، المتخلص بہ خستہ جے پوری،خان ذی شان وحکیم بے بدل، قطعہ تاریخ دیوان میرزا مضطر صاحب، مضطر عالی ہم کا ہے عجب رنگیں کلام، قطعہ تاریخ دیوان جناب نواب احمد علی صاحب، بہادر: طبع نواب سخن ہمایوں فطرت، قطعہ درتہنیت توند فرزند ارجمند مہاراجہ منگل سنگھ، صاحب بہادر والی انور، یہ دن بھی ہے عجب روز مبارک، تاریخ وفات جناب نواب ضیاء الدین خاں صاحب، بہادر متخلص بہ نیسر: شہر دہلی کو تفوق تھا انہی باتوں سے، قطعہ تاریخ انتقال مرزا غالب: کل حسرت وافسوس میں میں بادل مخروں ، تاریخ تزویج حکیم محمد رشید خاں صاحب خلف حکیم غلام بنی خاں صاحب، آں خان عالی منزلت عبد الرشید محترم، قطعہ تاریخ باغ حاذق الملک جناب عبدالمجید خاں صاحب، واہ کیا باغ ہے یہ باغ کہ جس میں شب و روز قطعہ تاریخ دیوان سید ظہیر الدین صاحب، المتخلص بہ ظہیر دہلوی: سخن سنج یکتا جناب ظہیر، قطعہ تعریف قلم: نہیں کلک، ہے بلبل خوش نما، قطعہ تاریخ دیوان میرامراؤ میرزا صاحب المتخلص بہ انور، برادر خورد سید ظہیر الدین صاحب ظہیر، شاعر
آسماں خیال انور، قطعہ تاریخ وفات نواب محمد علی خاں صاحب، مرحوم، رئیس جہانگیر آباد: رہے امیر محمد علی بہ خاں مشہور، تاریخ بنائے مکان عالی جناب حکیم غلام رضاخاں صاحب، غلام رضا خاں، ارسطوے عہد، (تقاریظ) تقریظ از مزمہ سنجی بلبل گلستان معافی گل سرسید سخن دانی، عالی جناب، نواب معلٰی القاب، سید خاقان حسین خاں صاحب عارف دہلوی، تقریظ ریختہ کلک گوہر سلک نواب اکبر میرزا صاحب متخلص بہ سید خلف نواب معین الدولہ سید حسین میرزا صاحب ، شاگرد مولانا مجروح و حضرت حالی، (قطعات تاریخ طبع دیوان مجروح): قطعہ تاریخ از نتیجہ طبع عالی جناب فیض احمد صاحب اصغر جھنجھانوی تلمیذ جناب امیر مینائی ، تعالٰی اللہ ! عجب لکھا ہے دیواں، قطعہ تاریخ طبع دیوان مجروع ، از از تصنیف حالی صاحب، مجروع آنکہ نام سلف زندہ شد ازو، قطعہ تاریخ از زمزمہ سنجی بلبل ہندوستان، مقرب الخاقان، استاد السلطان ، نواب فصیح الملک، بہادر حضرت داغ دہلوی: میرے دیوان کی تاریخ کہو، پھر دیکھو، قطعہ تاریخ ریختہ کلک گوہرسلک نواب اکبر میرزا صاحب متخلص بہ سید خلف نواب معین الدولہ سید حسین میرزا شاگرد مولانا مجروح و حضرت حالی مدظلھم العالی: چوں رفت از جہاں غالب نکتہ ور ایضاً زہے دیوان مجنوں خیز مجروع، ایضاً : جو دیوان مجروح گردید طبع، وہ کلام میرمہدی ہے جو مخزن معانی قطعہ تاریخ از منشی اودھم سنگھ صاحب سردار، امرت سری، شاگرد حضرت جلال لکھنوی: حضرت مجروح کا دیوان اوّل چھپ گیا، قطعہ تاریخ از نتیجہ طبع عالی داروغہ سرفراز حسین صاحب رئیس دہلی: مطبوع ہوا کلام مجروع، قطعہ تاریخ از نتیجہ طبع عالی طوطی شکرستان، خوش مقالی، ہمارے فلک شہریاری جناب سید ظہیرالدین صاحب ظہیر دہلوی: ہوامیر صاحب کا جب طبع دیواں، قطعہ تاریخ از نتیجہ فکر جناب محمد وجاہت حسین صاحب وجاہت صدیقی جھنجھانوی، تلمیذ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی: حقیقت میں مجروح صاحب کا ثانی، قطعہ تاریخ از نتیجہ فکر جناب سید دلاور حسین، صاحب لکھنوی المتخلص بہ واصف، چوں دیواں کہ ہر فرد او بے گماں، ایضاً چھپ کے تیار ہوا جب دیواں، ایضاً شوق تھا جس کا ایک عالم کو، قطعہ تاریخ دیوان از مصنف ممدوح، کہاں ہیں صاحبان شوق تا اس نظم کو دیکھیں۔
In Urdu
Hbk.
There are no comments on this title.