Image from Google Jackets

کلیات مصحفی جلد ہشتم : مصحفی، غلام ہمدانی

By: Contributor(s): Material type: TextTextPublication details: Lahore : Majlis Taraqi Adab, 1994.Description: 144 pagesSubject(s): DDC classification:
  • 891.4391 م ص ح 1994
Contents:
غزلیات:(ردیف الف) صحرائے محبت سے اُٹھا تھا جو بگولا، عشق کرتا ہوں میں معشوق سےدانائی کا، یکایک کوہ آفت کب مرے سرپر نہیں آتا، جس کے ناسور کہن پر سال ہا مرہم لگا، لکھے ہیں خط تو بہت ، نامہ بر نہیں ملتا، جو دال چنے کی پہ لکھے پیل کا خاکا، جن ترپتوں پہ تھا نہ کبھی جوش نقش پا، چنداں بہ رنگ گل چمن دہر میں رہا، ہنگماہ بانکپن سے ترے شہر میں رہا بیت آرسی کی شکل کد آزر کا گھر بنا، دل توشتہ کو مریے مضر ہے گریہ ہر پل کا، ہر ایک سے کھینچو ہوکیوں آپ کو دور اتنا، راہ طلب میں سعی سے غافل کہاں ہوا، سامری گرچہ نہ موسیٰ کے جدل مٰں چوکا، خط پہ کاجل کی مژہ ہذسہ ہے جادو کا، رنگا جو اُس نے اک دن رنگار میں دوپٹا، رہتا ہے خوش اب اپنی اوقات میں دوپٹا، گھر سے باہر جو میں خو کردہ زنداں نہ گیا، پھر یہ کیسا اُدھیٹر بن سالگا، باتوں پہ لگاوٹ کی مری یار نہ ٹھہرا، ، تماشا تاسحر دیکھا کروں تاسیر کوکب کا، کل پتنگ اُس نے جو بازار سے منگوا بھیجا، پریشان کیوں نہ ہوجاوئے نظارہ، دل رہا مشتاق ہی اُس شیخ کماں کے تیر کا، چھپ گیا جلوہ دکھا وہ بت پر فن اپنا، شب پیش نظر حسن کا بازار تو رکھا، دنیا کے بیچ مجھ پہ جو رنج وعذاب تھا، شانے سے گیسوؤں کا ترے خم نکل گیا، آغاز سال ماہ محرم سے ہووے گا، مژدہ آمد گل سن نہ میں تنہا اُچھلا، قدم اُٹھے نہ پئےسیر بے دماغوں کا، رخ زلف میں بے نقاب دیکھا، بلبلو! باغباں کو کیوں چھیڑا، ہے نور ماہ سے روشن چراغ گورمرا، ہوا ہے ڈوروں پہ فندق کے دل جو ڈور مرا، روز اول سے تو صورت میں فلک کانا تھا، یوں ہوا ہجر کی شب مجھ سے مرا یار جدا، میں شب وصل جو اس شوخ کو مل دل ڈاالا، آب کی طرح زمیں پر ہے اجارا اپنا، دامن کو لے کے منہ پہ وہ محبو سورہا،کل توکھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا، (ردیف ب) وے تیرگی بخت سراغ شب مہتاب، (دریف پ) رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بدگمانی آپ، کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ (دریف ت)جاویں کیوں ہم اُس کے پیچھے گو پھرے در دربسنت، لب شیریں ہیں تیرے آب حیات، خوش کمر پھرتے ہیں گلیوں میں جوشمشیر سمیت، رکھے ہے حور ہی ایسی تو نے پری صورت، عشق کا آکر چڑھا مجھ کو جو بھوت۔ (دریف ج) قافیہ خون جگرپر جو مرے تنگ ہے آج، میں نے حد رخش سے رکھا شطرنج، (دریف چ) لیے آدم نے اپنے بیٹے جانچ، ویسے چمن ملا انھیں وطن کے بیچ، (دریف د ) عدم میں تھا مری آنکھوں کو خواب سے پیوند، میں کھولوں لب سے گراپنے بہ شعر خوانی بند، جوں ادھ جلی لکٹری کہ فروزاں ہو مکرر، پیماں اگراک ٹوٹے تو پیماں ہو مکرر، شب وصال گئی ہم سے منہ چھپاآخر، کچھ اس کے سوا سوجھتی تدبیر نہیں اور، (دریف ڑ) زور اگر ہے تو دلا! تو بت پندار کو توڑ، (دریف ز) کیا غم ہے مری آہ کا پودا جونہیں سبز، (دریف ف) بعدملت کے چلےہیں پھرگلستاں کی طرف، (دریف ک) کیا فائدہ جو زخموں کو اب رکھیے ٹانک ٹانک ، (دریف گ) اپنے پاتا نہیں آتش کدہ داغ میں آگ، (دریف ل) چاک گلی جب گئے میرے جگر چاک میں مل، آیا جو رات گھر سے وہ جان جہاں نکل، کچھ میں نہیں اک راحت و آرام سے معزول، ناگفتنی ہے قصہ دور و دراز دل، ہے سبک جیسے تفنگ کف معشوق کانال ، مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال، (دریف م) ایسے ڈرے ہیں کی نگاہ غصب سے ہم، (دریف ن) شوق سے کیوں جا نہ بیٹھے قتل کے میدان میں، ہوگیا مائل بہ سرخی اس کا چہرہ دھوپ میں، کل جو آیا رکھے وہ چہرے پہ پنکھا دھوپ میں، کیا شادیوں میں پھرتے مدام ان کے ڈولے ہیں، کہیں کیا کس مصیبت سے فغاں بنیاد کرتے ہیں، یار جب پھسلا کے لائے یاں بیاباں سے ہمیں، تم چاہو یا نہ چاہو، ہم تم کو چاہتے ہیں، چرخ اطلس نے ستاروں کی جو پائیں آنکھیں، بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں، ہر طرف سے جھوم جھوم آئیں گھٹائیں بدلیاں، شروع سال سے پھر ولولے ہوئے دل میں، آتا نہٰیں وہ غیرت عیسی انظر کہیں، رات آرسی پہ اُس کی پڑی تھی نظر کہیں، موپشت لب سے یار کے جب تک نمو لریں، مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں، میں وہ نہیں کہ شکوہ گردون دوں کروں، کشتگان ناز کی جب اس کے قبریں پٹ گئیں، کٹ گئی ہیں جاگتے شب ہائے ہجراں سیکٹروں، سخن میں کامفانی کررہا ہوں، جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں، (دریف و) رہنے کو مقرر جو کوئی میرے مکاں ہو، ہے وہ بھی ساد ہ اور صنم تم بھی سادہ ہو، مستوں نے کیا طرہ سرتب سر رزکو، لتے لگ جائے وہ نوکرجو سہ و نوکا ہو، شب میں دیکھی ہیں پڑی پاؤں میں زنجیریں دو، شعرکیا جس میں نوک جھونک نہ ہو، درتلک جانے کی ہے اُس کے مناہی ہم کو، اپنی کشتی کی خوش آتی ہے تباہی ہمکو، مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہوسو ہو، جب دکھاتی ہیں تری نرگس فتاں مجھ کو، (دریف ہ) دل میں مرے جو یار کی الفت گئی ہے بیٹھ ، خود وہ چشم سادہ ہو جب پیرہن میں آئنہ۔ (دریف ے) مہ داغ دل پہ دیکھ کے تعویذ دست کھائے، رنگ حنا سے اس کے شفق روئے دست کھائے، رخ گل کاپشت پا سے تری پشت دست کھائے، انجن جو آنسوؤں کامرے روپ چست کھائے، جو آج نظرآئے ہے افسانہ ہے یہ بھی، کرکے جب سیر باغ نکلے ہے، عکس کوطالب نظارہ جو پایا تو نے، مجھ سبک روح کو کیا خانہ زنداں رو کے، بھولی ہے راہ میرے کبوتر نے بام کی، مسدود ہے جو راہ بیام وسلام کی، دوہتڑوں کی دھڑا دھٹر جو مارمنہ پر ہے، دیرآئینہ اُس کی کف میں ٹھہرئے، باغ ہستی کی ہوا کیونکہ مجھے راس آوے، روش پہ باغ کی وہ گل جو بے نقاب بھرے، مری طرف کو رخ یار پر حجاب پھرے، مارتے تھے جو غریبوں کے تئیں، پیلے ہوئے، دریغ ہو نہ سکی ہم سے جستجو تیری، آئنہ یار کے جس وقت دو چار آتا ہے، ہماری سد رہ ہے ناتوانی، نہ کہہ موسیٰ سے اب اپنی کہانی، عکس کوطالب نظارہ جو پایا تونے، کہوں جو بات کوئی اُس سے میں نصیحت کی، مہرباں وہ بت ۔ بے مہرکہاں مجھ پر ہے، چاہنے سے رخ نیکو کے نہ کچھ کام رکھے، گیسو کی شمیم اس کے گلشن میں جو
جا نکلے، وہ شوخ جو ہولی میں کچھ سانگ بنا نکلے، پیغام زبانی ہی اگر آئے تو کہیے، آرام کہاں گنبد افلاک کے نیچے، تقصیر اس میں کچھ تری اے آسماں نہ تھی، پھڑ کے ہے نبض دام میں مرغ اسیر کی، نہ فقط شیشہ تنوں کے ہیں بند پھتر کے، تیشہ دیتا ہے لگا چشم وہن پتھر کے، گرقتل مرا آپ کو منظور نظر ہے، کیا ڈراتی ہے نت آنے سے ، اجل آوے بھی، چاہیے ہم کو جگہ مثل نگیں تھوڑی سی، اُس کی اُتری جو کبھی چین جبیں تھوڑی ہے، یارب یہ کس بلا کے مقابل کیا مجھے، ظالم نے کیا ظلم کیا، جان گنوائی، دو چار دن سے اپنا نہ ملنا نہ دید ہے، کنعاں سے گرچہ مصر کا عرصہ بعید ہے، چشم تر اشکوں سےموتی جھیل ہے، بول اُٹھا میں جو نظر شام غریباں آئی، (رباعیات) اول جو کوئی مرگ گوارا کرلے، افسوس کہ عشرہ : محرم بھی چلا، (سلام) سلامی دیکھ امام زباں کے تن کی طرف۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)

کلیات مصحفی جلد ہشتم

غزلیات:(ردیف الف) صحرائے محبت سے اُٹھا تھا جو بگولا، عشق کرتا ہوں میں معشوق سےدانائی کا، یکایک کوہ آفت کب مرے سرپر نہیں آتا، جس کے ناسور کہن پر سال ہا مرہم لگا، لکھے ہیں خط تو بہت ، نامہ بر نہیں ملتا، جو دال چنے کی پہ لکھے پیل کا خاکا، جن ترپتوں پہ تھا نہ کبھی جوش نقش پا، چنداں بہ رنگ گل چمن دہر میں رہا، ہنگماہ بانکپن سے ترے شہر میں رہا بیت آرسی کی شکل کد آزر کا گھر بنا، دل توشتہ کو مریے مضر ہے گریہ ہر پل کا، ہر ایک سے کھینچو ہوکیوں آپ کو دور اتنا، راہ طلب میں سعی سے غافل کہاں ہوا، سامری گرچہ نہ موسیٰ کے جدل مٰں چوکا، خط پہ کاجل کی مژہ ہذسہ ہے جادو کا، رنگا جو اُس نے اک دن رنگار میں دوپٹا، رہتا ہے خوش اب اپنی اوقات میں دوپٹا، گھر سے باہر جو میں خو کردہ زنداں نہ گیا، پھر یہ کیسا اُدھیٹر بن سالگا، باتوں پہ لگاوٹ کی مری یار نہ ٹھہرا، ، تماشا تاسحر دیکھا کروں تاسیر کوکب کا، کل پتنگ اُس نے جو بازار سے منگوا بھیجا، پریشان کیوں نہ ہوجاوئے نظارہ، دل رہا مشتاق ہی اُس شیخ کماں کے تیر کا، چھپ گیا جلوہ دکھا وہ بت پر فن اپنا، شب پیش نظر حسن کا بازار تو رکھا، دنیا کے بیچ مجھ پہ جو رنج وعذاب تھا، شانے سے گیسوؤں کا ترے خم نکل گیا، آغاز سال ماہ محرم سے ہووے گا، مژدہ آمد گل سن نہ میں تنہا اُچھلا، قدم اُٹھے نہ پئےسیر بے دماغوں کا، رخ زلف میں بے نقاب دیکھا، بلبلو! باغباں کو کیوں چھیڑا، ہے نور ماہ سے روشن چراغ گورمرا، ہوا ہے ڈوروں پہ فندق کے دل جو ڈور مرا، روز اول سے تو صورت میں فلک کانا تھا، یوں ہوا ہجر کی شب مجھ سے مرا یار جدا، میں شب وصل جو اس شوخ کو مل دل ڈاالا، آب کی طرح زمیں پر ہے اجارا اپنا، دامن کو لے کے منہ پہ وہ محبو سورہا،کل توکھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا، (ردیف ب) وے تیرگی بخت سراغ شب مہتاب، (دریف پ) رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بدگمانی آپ، کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ (دریف ت)جاویں کیوں ہم اُس کے پیچھے گو پھرے در دربسنت، لب شیریں ہیں تیرے آب حیات، خوش کمر پھرتے ہیں گلیوں میں جوشمشیر سمیت، رکھے ہے حور ہی ایسی تو نے پری صورت، عشق کا آکر چڑھا مجھ کو جو بھوت۔ (دریف ج) قافیہ خون جگرپر جو مرے تنگ ہے آج، میں نے حد رخش سے رکھا شطرنج، (دریف چ) لیے آدم نے اپنے بیٹے جانچ، ویسے چمن ملا انھیں وطن کے بیچ، (دریف د ) عدم میں تھا مری آنکھوں کو خواب سے پیوند، میں کھولوں لب سے گراپنے بہ شعر خوانی بند، جوں ادھ جلی لکٹری کہ فروزاں ہو مکرر، پیماں اگراک ٹوٹے تو پیماں ہو مکرر، شب وصال گئی ہم سے منہ چھپاآخر، کچھ اس کے سوا سوجھتی تدبیر نہیں اور، (دریف ڑ) زور اگر ہے تو دلا! تو بت پندار کو توڑ، (دریف ز) کیا غم ہے مری آہ کا پودا جونہیں سبز، (دریف ف) بعدملت کے چلےہیں پھرگلستاں کی طرف، (دریف ک) کیا فائدہ جو زخموں کو اب رکھیے ٹانک ٹانک ، (دریف گ) اپنے پاتا نہیں آتش کدہ داغ میں آگ، (دریف ل) چاک گلی جب گئے میرے جگر چاک میں مل، آیا جو رات گھر سے وہ جان جہاں نکل، کچھ میں نہیں اک راحت و آرام سے معزول، ناگفتنی ہے قصہ دور و دراز دل، ہے سبک جیسے تفنگ کف معشوق کانال ، مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال، (دریف م) ایسے ڈرے ہیں کی نگاہ غصب سے ہم، (دریف ن) شوق سے کیوں جا نہ بیٹھے قتل کے میدان میں، ہوگیا مائل بہ سرخی اس کا چہرہ دھوپ میں، کل جو آیا رکھے وہ چہرے پہ پنکھا دھوپ میں، کیا شادیوں میں پھرتے مدام ان کے ڈولے ہیں، کہیں کیا کس مصیبت سے فغاں بنیاد کرتے ہیں، یار جب پھسلا کے لائے یاں بیاباں سے ہمیں، تم چاہو یا نہ چاہو، ہم تم کو چاہتے ہیں، چرخ اطلس نے ستاروں کی جو پائیں آنکھیں، بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں، ہر طرف سے جھوم جھوم آئیں گھٹائیں بدلیاں، شروع سال سے پھر ولولے ہوئے دل میں، آتا نہٰیں وہ غیرت عیسی انظر کہیں، رات آرسی پہ اُس کی پڑی تھی نظر کہیں، موپشت لب سے یار کے جب تک نمو لریں، مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں، میں وہ نہیں کہ شکوہ گردون دوں کروں، کشتگان ناز کی جب اس کے قبریں پٹ گئیں، کٹ گئی ہیں جاگتے شب ہائے ہجراں سیکٹروں، سخن میں کامفانی کررہا ہوں، جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں، (دریف و) رہنے کو مقرر جو کوئی میرے مکاں ہو، ہے وہ بھی ساد ہ اور صنم تم بھی سادہ ہو، مستوں نے کیا طرہ سرتب سر رزکو، لتے لگ جائے وہ نوکرجو سہ و نوکا ہو، شب میں دیکھی ہیں پڑی پاؤں میں زنجیریں دو، شعرکیا جس میں نوک جھونک نہ ہو، درتلک جانے کی ہے اُس کے مناہی ہم کو، اپنی کشتی کی خوش آتی ہے تباہی ہمکو، مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہوسو ہو، جب دکھاتی ہیں تری نرگس فتاں مجھ کو، (دریف ہ) دل میں مرے جو یار کی الفت گئی ہے بیٹھ ، خود وہ چشم سادہ ہو جب پیرہن میں آئنہ۔ (دریف ے) مہ داغ دل پہ دیکھ کے تعویذ دست کھائے، رنگ حنا سے اس کے شفق روئے دست کھائے، رخ گل کاپشت پا سے تری پشت دست کھائے، انجن جو آنسوؤں کامرے روپ چست کھائے، جو آج نظرآئے ہے افسانہ ہے یہ بھی، کرکے جب سیر باغ نکلے ہے، عکس کوطالب نظارہ جو پایا تو نے، مجھ سبک روح کو کیا خانہ زنداں رو کے، بھولی ہے راہ میرے کبوتر نے بام کی، مسدود ہے جو راہ بیام وسلام کی، دوہتڑوں کی دھڑا دھٹر جو مارمنہ پر ہے، دیرآئینہ اُس کی کف میں ٹھہرئے، باغ ہستی کی ہوا کیونکہ مجھے راس آوے، روش پہ باغ کی وہ گل جو بے نقاب بھرے، مری طرف کو رخ یار پر حجاب پھرے، مارتے تھے جو غریبوں کے تئیں، پیلے ہوئے، دریغ ہو نہ سکی ہم سے جستجو تیری، آئنہ یار کے جس وقت دو چار آتا ہے، ہماری سد رہ ہے ناتوانی، نہ کہہ موسیٰ سے اب اپنی کہانی، عکس کوطالب نظارہ جو پایا تونے، کہوں جو بات کوئی اُس سے میں نصیحت کی، مہرباں وہ بت ۔ بے مہرکہاں مجھ پر ہے، چاہنے سے رخ نیکو کے نہ کچھ کام رکھے، گیسو کی شمیم اس کے گلشن میں جو

جا نکلے، وہ شوخ جو ہولی میں کچھ سانگ بنا نکلے، پیغام زبانی ہی اگر آئے تو کہیے، آرام کہاں گنبد افلاک کے نیچے، تقصیر اس میں کچھ تری اے آسماں نہ تھی، پھڑ کے ہے نبض دام میں مرغ اسیر کی، نہ فقط شیشہ تنوں کے ہیں بند پھتر کے، تیشہ دیتا ہے لگا چشم وہن پتھر کے، گرقتل مرا آپ کو منظور نظر ہے، کیا ڈراتی ہے نت آنے سے ، اجل آوے بھی، چاہیے ہم کو جگہ مثل نگیں تھوڑی سی، اُس کی اُتری جو کبھی چین جبیں تھوڑی ہے، یارب یہ کس بلا کے مقابل کیا مجھے، ظالم نے کیا ظلم کیا، جان گنوائی، دو چار دن سے اپنا نہ ملنا نہ دید ہے، کنعاں سے گرچہ مصر کا عرصہ بعید ہے، چشم تر اشکوں سےموتی جھیل ہے، بول اُٹھا میں جو نظر شام غریباں آئی، (رباعیات) اول جو کوئی مرگ گوارا کرلے، افسوس کہ عشرہ : محرم بھی چلا، (سلام) سلامی دیکھ امام زباں کے تن کی طرف۔

In Urdu

Hbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.