Image from Google Jackets

کلیات مصحفی جلد ہفتم : مصحفی، غلام ہمدانی

By: Contributor(s): Material type: TextTextPublication details: Lahore : Majlis Taraqi Adab, 1995.Description: 335 pagesSubject(s): DDC classification:
  • 891.4391 م ص ح 1995
Contents:
مرا خاموش رہنا وقت پیری گرچہ بہتر تھا، اے نالہ بس دماغ پریشاں نہ کر مرا، ہوا نہیں میں کچھ آج شیداکسی کے رخسار نازنیں کا، کب درد کی میں اپنے تدبیرنہیں کرتا، کیوں شور جنوں تو کچھ تدبیر نہیں کرتا، صاف چولی سے عیاں ہے بدن سرخ ترا، کیسہ مالی سے ہوا گل بدن سرخ ترا، اک تو تھاآتش سوزاں بدن سرخ ترا، رنگ پاں سے جو ہوا گل وہن سرخ ترا، گلوں سے دونوں پہنچے میرے دو طاؤس ہیں گویا، جوگستاخانہ کچھ اس سے میں بولا، پان ومسی سے لب پہ ترے عرصہ تنگ تھا، ذبح کے دم اس کو جو نخچیر منہ تکتا رہا، یاس وحسرت کا تولاشے پہ مرے غل ہوتا، دست بسلم مین اگر دامن قاتل ہوتا، کیوں نہ اس چشم کو سمجھے دل بیمار دوا، غم خوار مرا دل بھی تو اصلا نہیں ہوتا، بہ سوے قبلہ دلا! گر کبھو میں سجدہ کیا، صدمے سو دل پہ ہوئے ہم نے نہ جانا کیا تھا، گھٹا چھائی ہوا طوفاں اندھیرا، پیغام اجل نے جو دیا جاں شکنی کا، عمر آخر بہ ہوا داغ اس دل رنجور کا، ہو نہیں جاتا ہوں عاشق ہر شررکے نور کا، بیٹھے بیٹھے جو خیال رخ دلدار بندھا، زیبندہ ہے شبنم کا گل تر کو پسینا، اگرنہ دورفلک مجھ سے کج روی کرتا، اتنا ہوتا ہے کوئی غیر سے مالوف بھلا، کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا، گر رہے گا کوئی ذرہ تری بینائی کا، جب چمن میں جلوہ گر وہ قامت رعنا ہوا، نیرنگ حسن سے جو ترے متصل ہوا، اس مرگ کوکب نہیں میں سمجھا، مجھ کو چولھے میں نظر آتا ہے شعلہ طور کا، رات دن اپنا ہی میں خون جگر ہوں پیتا، معاملہ ہی عزیزوںسے میں نے صاف کیا، ذبح کے وقت وہ اندیشہ شمشیرمیں تھا، کب میں فکر غزل زلف پریشاں میں نہ تھا، سمجھ لے اس سے بدن کی خوبی نہ رنگ کچھ پوچھ اس بدن کا، سلمے میں نہ تھا نام خدا اتنا جھمگڑا، گور سے نکلے ہے اک شکل دہان اژدہا، چتون سے جس کی نکلے انداز دلبری کا، گرمی صید نے صحرائے ختن پھونک دیا، تیرے دیکھے سے نہ ایمان راہ مردم کا، پیا میں آکے جو شب تم نے طما نچا مارا، رہتا ہے ترے وصل کے ارمان میں کتنا، غم کا پیونداپنے مغزاستخواں سے ہوگیا، نہ بت خانوں میں ہے شور آج حسن انتخابی کا، بے سبب آزردہ صنم ہوگیا، شبنم کا قطرہ ہی نہ فقط آب دیدہ تھا، قاصد کے ہاتھ اگر میں خط وپیام بھیجا، لب ہلاتے ہی مرے مجھ سے توبیزار ہوا، ایک کرکے جب کرے ہے وہ اشارا دوسرا، پیچ وتاب رگ بسمل نہ ہو کیوں دام اپنا، صیاد تو بہار میں دل شاد کر چکا، گیا فلک کے پرے نالہ بلند اپنا، اپنا شب فراق ہوتاریک خانہ تھا، میں پاؤں پاؤں سطح زمیں پر روانہ تھا، بیمار چشم وگیسو ہو جی سے تنگ لٹکا، بعد کشتن زندہ میں نام وفا رہنے دیا، صبح محشر میں بھی یہ معجزہ پایا نہ گیا، سر سے عاشق کے تری تیغ کا سایا نہ گیا، بجاتا تالیاں ہراک دل شیدا کے پیچھے تھا، داد خواہ آیا ہے یاں زخم کسی کے تیر کا، کھینچیتا پہلے نہ گر فرہاد رخ تصویر کا، ہاتھ سے یار کا جب گوشہ داماں چھوٹا، رنج غربت میں بھی آرام بہت سا پایا، کبھی جو ہاتھ مرا مرے اختیار میں تھا، ہے قصد زخم دل کو اگراندمال کا، امتحاں کرنہ صنم اپنے تمنائی کا، وہ نہیں میں کہ صف جنگ میں ٹل جاؤں گا، نہ میں صحرا میں نہ گلش کو نکل جاؤں گا، دور سے آیا ہوں میں اورہے ارادہ دور کا، ہے شوق اس کو جو آنکھوں میں مری چکر کا، پاتا ہوں اس کے حسن کو مائل حجاب کا، رہتا ہے عیش مردم آبی کو آب کا، رکھا جو پھول کان میں اس نے گلاب کا، اے صورقیامت تو جگاتی ہے ہمیں کیا، ایسا بھی اتفاق زمانے میں کم ہوا، رک رک گئی سیاہی جو کاغذ بہم ہوا، واکس کے رخ پہ طرہ پر پیچ و خم ہوا، اے ستم کشتہ!گرفتار خط و خال ہے کیا، دل میرے سوگ میں مت کر تو برادر میلا، تیغ ابرو کا ہے تیغا تیری کیا ہی اچھا ہرگز مریض حضرت عیسی نہیں موا، وارداک شب جو گہرپوش ہو جانانہ ہوا، کیوں پھڑکتا ہے س میں اسے آزاد ہے کیا، کیا کہوں میں جو شب وصل کا انداز ہوا، ملتفت مجھ پہ جو وہ دلبر طناز ہوا، پردہ شرم رخ یار سے جب باز ہوا، گلی سی یار کی قاصد مرا شتاب آیا، ہم سرو رواں ہوتا ہم آپ رواں ہوتا، نام پر جس کے کہ نقاش قلم پھیرگیا، نگاہ لطف کے کرتے ہی رنگ انجمن بگڑا، دعا دینے سے میرے شب وہ ترک تیغ زن بگڑا، شب گیا بھاگ خیال رخ جاناں کیسا، ہے یہی شور جنوں اب کے تو زنداں کیسا، دن رات طفل اشک کبھی نوردیدہ تھا ، نے سبو سے جام صہبا بھرلیا، کیاجانے حال کیاہو دل بیقرار کا، کون ہے وہ جو نہ تربت مری ٹھکرا گزرا، کوئی نظر پڑا کیا، معشوق خوش ادا کیا، فصل گل شور جنوں ولولہ انگیز آیا، جس نے دیا خط اس کو پڑھ کروہ پھاڑ چیرا، کھایا تھا وہ جو میں نے نکلا وہ ریزہ ہیرا، عاشق سے بے دماغی اس گل کا ہے وتیرا، شب فراق میں میں آہ ونالہ کیا کرتا، میں درد بادہ کو لے مثل لالہ کیا کرتا، محشر کو تھا جو وعدہ دیدار آپ کا، اگرچہ روح سے پیوند آب وگل چھوٹا، (دریف ب) عیش جہاں بغل میں تمہاری سب آرہا، سایہ خال ذقن ہے مگس جام شراب، شیشہ مے جو نہ ہو ہم نفس جام شراب، قسمت دشمن نہ ہو یہ قصر منحوس حباب، نالے کو شب ہجرتو میں ضبط کیا خواب، صیاد کرکے قید گیا ہم کو بھول خوب، رہ جاؤ میرے گھر کبھی مہمان شب کی شب، تھا سر میں کچھ جنوں کا جو طغیاں تمام شب، (دریف ت) چلا مین ہو کے جو نہی کوے یار سے رخصت، بیمار کے تیرے کہوں کیا دل کی حقیقت، پھرفصل گل آئی ہوئے یہ نغمہ سرامست، بندے پہ ترحم کم اللہ کی یہ صورت، (ردیف ٹ) ٹانگن تو ترا آپ صنم جاوے ہے کھٹ کھٹ، تختہ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ، کیوں نہ دل نظارگی کا جاوے لوٹ، مارافیوں ہے یاں سدا چٹ، (ردیف ث) رنگ رخ کرتا ہے تیرا گل سے بحث، کس نے لکھا ہے ترے رخ پہ خط ریحاں ثلث (ردیف ج) جتنا میں راست خم میں کیا امتحان موج، مرد قانع کو خدا دیوے ہے بے منت گنج، (دریف چ) ہم رہے دل کے یاں ملال کے بیچ، یوں تو کیا کیا نہ کہا یار نے شب پیار کے بیچ، رنگ ثبات ہم نے نہ دیکھا چمن کے بیچ، جب وقت
نزع کھائے گی تیری زبان بیچ، جھیل سکتے نہیں رستم تری تلوار کی آنچ، (ردیف ح) دیکھ کر پیشانی دلبر کی لوح، ہم لے گئے بخاک سیہ آرزوے صبح، (ردیف خ) آتش غم نے دیا یوں دل بیتاب کو چرخ، شکل دیکھی جو تری نرگس بدخواب کی سرخ، آپ مردم کو کرے ہے تیرا چہرا گستاخ، دیکھے اس نور تجلی کو کوئی کیا گستاخ، کام کرتی ہی نہیں سنگ کی تعمیر میں میخ، میچو داغ تو ہے نالہ تاثیر میں میخ، (ردیف د) سمجھتا ہے اس کو خدائے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کیا خاک سوز دل سے کریں ہم فغاں بلند، کہا تھا ایک دن اس نے زبان سے "ناشاد" ! کرے گا ذبح تو پھر کیا درنگ ہے صیاد، اتنا رہے تو عاشق مشتاق سے بعید، مرہی جانا ہے دل زار کا قصد ، (ردیف ذ) خط کو شہد لب جاناں ہے لذیذ، (ردیف ر) زبان نالہ کش کس کی ہوئی سرگرم شیون پر، ہزاروں کے رکھی غمزے نے سیدھی تیغ گردن پر، دل معشوق ہے سختی میں غالب سنگ وآہن پر، ہوں میں در سپرو سفر طرز نظر، دیکھ تو اے چشم ترطرز نظر، کون سمجھا تھا کدھر طرزنظر، بے قراری ہے مری درپے تدبیرآخر، اپنے صاحب سے مجھے ہے یہ گلہ آخرکار، قلعہ مجمر میں دیکھ جنگ سپندر وشرر، قاتل نے پھر رکھی ہے سروہی جوسان پر، جنس دل پر گرتے ہیں کم مایہ زرد آن کر، چونک اٹھا تھا زیر خنجر حلق بسمل دیکھ کر، نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر، اس باغ بے ثبات میں فکر مکاں نہ کر، ذبح کر'پٹی مری آنکھوں کی قاتل ! کھول کر، لے جا چمن میں میری تو خاک کو اڑا کر، کتنوں کے سرپہ آفت لائے جبیں دکھا کر، میں کیا وہ ہوں جو زباں وا کروں تلاش بغیر، پہچنا قریب مرگ تو میں تجھ کو چاہ کر، تلوار کو سج کر تو نہ بن یار بہادر، ہے ترے عارض کی سرخی دین وایمان بہار، چھاؤنی چھانے پہ ہیں اس سال فرمان بہار، غنچوں نے ٹوپی پھینک دی ترچھی کلاء پر، کل شوق لے گیا تھا مجھے وعدہ گاہ پر، لذت شعر و سخن ہوتی ہے بیکاری میں اور، پاؤں رکھتا ہی نہ تھا گھر سےجو دلبر باہر، تھا رقص سملوں کا تری انجمن میں زور، ہوتا ہے جو اس باغ میں گل کوئی ہوا دار، عاشق ہی کا فقط نہ گریباں ہے تارتار، نہیں سیرگل وگلزار کی خاطر منظور، (ردیف ڑ) سرکا جوڑا اس کا ہے کالا پہاڑ، ہے بلا زلف پریشاں کی اکڑ (ردیف ز) ماتم میں سنی ہووے گی جنات کی آواز، دل تو لگتا ہے مرا کوچہ جاناں میں ہنوز، شوق فناجو ہے دل بیتاب میں ہنوز، منہ وصل کی شب مجھ کو دکھاتی نہیں ہرگز، تمام موسم برسات میں ہے صحرا سبز، (ردیف س) ہوچکا ناز، منہ دکھائیے بس، ساقیا! ہیں یہ تری چشم کے دوفنجاں بس (ردیف ش) کیا اسے پرواے پیرمے فروش، لوٹیں ہیں صبح تک شب غم میں بہار عیش، کرنہ اے عاقل تواتنا برطلسم خام رقص، (ردیف ض) ہرگز ملا نہ ہم کو کوئی آشنا غرض، (ردیف ط) ہووے شب فراق کی جب شام بے نقط، کیا کہوں اپنی میں تباہی خط، (ردیف ع) دیکھ لوں تک سعادت طالع، ایک ہی ہے اس کی فندق کی حنا کا رنگ وشمع، کب تلک پیش نظرہر دم نے فرہنگ وشمع، روبرو اس کے جو تھی شب فندق گل رنگ وشمع، شب کہ تھا حجرے میں وہ زیب مکاں تنگ وشمع، ہے دزد شمع کو سر تسخیر پائےشمع، لخت دل سے آہ ہے عاشق کی تیاری کی شمع، لخت دل سے آہ ہے عاشق کی تیاری کی شمع، اشک ریزاں سے لگن کو بخشے ہے دردانہ شمع، (ردیف غ) دوستو! بالیں یہ میری مت کرو روشن چراغ، رنگ گل سے آب جو میں ہے یہ عکس افگن چراغ، گودھرا ہو سامنے باآتش و روغن چراغ، سیکٹروں مضموں بجھاوے تا یہ بے روغن چراغ، آہ سے روشن کیا میں نے بیاباں میں چراغ، اپنا منہ دیکھے نہ کیوں شبہائے ہجراں میں چراغ، مت بیٹھیو یوں جا کے تو زنہار تہ تیغ، یکبار خصم جاں ہوا چرخ برٰں دریغ! نہ سرانجام ہوا کام کوئی ہائے دریغ، (ردیف ف) دوبات کی فرصت میں نہ گرپائی تو کیا لطف، (ردیف ق) میں دیکھ اپنے دل کو پریشاں شب فراق، صورت دکھا وصال کی بازی گرفراق، پھولی ہے زلف میں رخ گلفام کی شفق، چالیس برس کا ہی ہے چالیس کے لایق، باغباں! کھود نہ تو گرد گلستاں خندق، (ردیف ک) چھڑک، اے ابر! مری خاک پہ تو پانی ایک، تصویر کا وہاں کی ہوتا ہے رنگ نازک، (ردیف گ) بس کہ نکھرا ہے مرے طالع مسعود کا رنگ، رونے سے مرے دیدہ گریاں میں لگی آگ، جوں شعلہ نہ میرے تن عریاں میں لگی آگ، (ردیف ل) غرق خوں ہو مثل داغ لالہ میرا داغ دل، مر ہی گیا قفس میں نہ دیکھی بہار گل، وہ کھنڈ گیا ہی مقدر جو تھی تباہی گل، خانہ دہر کے باہر مجھے حرمت سے نکال، کیونکہ چھوٹے کمر نازک جاناں کا خیال، بزم میں اے گل سوبیٹھا تو نگھتا ہے کس کے پھول، جوں گل حرماں چمن سے ہاتھ آئے کس کے پھول، دلفریب اس رنگ سے کب ہیں چمن میں اسکے پھول، بنیی و گوش تک ترے پہنچے چشیم و گل، ہے روح وجسم خاکی انساں نیسم وگل، اس بن جو دیکھتا بھی ہوں گا ہے میں سوئتے گل، ہرگز نہ تیرے رو سا ہوا صاف روے گل ،کان دھر کر ترے کوچے میں سنوں زاری دل، (ردیف م) سستے تمہارے ہاتھ بکے اس قدر کو ہم، اب حرف "آہ" آہ نکلتا ہے لب سے کم، گرچہ تھے دیر سے پرواز کے انداز میں ہم، زاری سے میری کم نہیں کچھ زاری قلم، گلشن سے ترے حسن کے گلچیس نہ ہوئے ہم، آتے ہی چوری چوری جی میں سما گئے تم، دیتی تھی ہم کو نکہت گل کا پتا نسیم، منہ پھرامت قتل کو میرے ہے کافی پشت چشم، تصدیع کھینچتے ہیں اب اس گلستاں میں ہم، یہ تو کہاں کہ فرش مشجر ہے اور ہم، آہ اک دن جو پڑا اس دل ناشاد سے کام، خوب رویاں جو مرے درد کا چارا نہ کریں، نالے ہزار مرغ چمن کے دہن میں ہیں، نہ ترے حسن کے دن اور نہ بہاریں وہ رہیں، مہ وخورشید گراس رخ کا نظارا نہ کریں، بسمل نے وقت ذبح اگر آنکھیں کھولیاں، نرگس نے گل کی دید کو آنکھیں جو کھولیاں، اس نے لٹیں جو جعد معنبر کی کھولیاں، کبھی بہار کبھی ہےخزاں زمانے میں، دست تجرید میں مجنوں سے فزوں کوش ہوں میں، الماس سے بھرے ہوئے اس گل کے کان ہیں، دل جا کے رہا سایہ مژگاں میں توکےدن، سوبلا عشق کے آغاز میں ہیں، آنکھیں نہ کیونکر
گوشہ داماں سے دور ہوں، اس تیغ سے وب بچ گئے خوں میں نہایا ایک میں، کیوں تڑپتے ترے بسمل ہیں یہ مرجائیں کہیں، ہم گرفتار بلا جی سے گزرجائیں کہیں، بہت سا ابتدائے عشق میں غم کو چھپایا میں، آتے ہی قفس میں جو یہ گھر بھول گئے ہیں، تیغ زباں کو اپنی اگر میں علم کروں، مجھ پر تو ملتفت ہی نہیں یار کیا کروں، ہوگیا ہے نقش خوں سے تیشہ فرہاد میں، بن چھڑے واں ہے رخ پرتوفیر اشک جاناں، عاض کا گلکدہ ہے جاگیر اشک جاناں، مسی سے ہوگیا ہے بلاے سیہ دہن، نہ مصاحبت مری گرم ہے نہ میں شہ کا یاروندیم ہوں، خواہش روے نکو دل سے تو جانے کی نہیںِ صفائے سینہ صفائے گلو سے بھی افزوں، قابل علاج کے مرا درد نہاں نہیں، پھررت آئی ہولی کی ہرکوچہ دفیس رنگیں بجیں، بزم سرودخوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں، رنگ رخ چمکا ہے پھر یار کامے نوشی میں، گوش بن جاتے ہیں مجلس میں ذہن جتنے ہیں، سخت جاں سوزی دشمن ہے گداز آہن، جز سکندر نہ ہوا آئینہ ساز آہن، آہستہ رکھ قدم کہ تہ خاک لوگ ہیں، اک دم گلے سے لگ کر بوس وکنار کرلیں، اس کا پیچھا چھوڑتا ہے یہ دل بسمل کہاں، حلت ہے مے کی ماہ صیام خیال میں، نہ یہ طاقت کہ بزم اس کی سے اٹھ کر اپنے گھرجاؤں، قہر آفت ہوتے ہیں سچ ہے یہ بالا پن کے دن، میں ہی جانوں ہوں جو کچھ مجھ سے ادائیں کی ہیں، کسی سے ہم نے جو آنکھیں ملائیاں ہوتیں، زباں بریدہ سے اے ہمصفیر! ہم بھی ہیں، شب ہجراں کہوں کیا مجھ پہ کیا کیا آفتیں پڑیاں، اک پل میں چشم ترنے دریا بہا دیے ہیں، ہم جو تنہائی میں فریاد کیا کرتے ہیں، گرمیاں عشق کی ایام حقیری میں کہاں، رکھوں ہوں منہ توولے قابل کلام نہیں، دست زندہ ہی کے زیبا ہے بدن میں آستیں، کس طرح اپنے دلبر جانی سے میں ملوں، کھتا ہوا زمیں پہ چکر پھرا ہوں میں، اس کا سبب یہ ہے جو میں گرم فغاں نہیں، جاے بروں شدنفس پر دخاں نہیںِ کیا غم ہے گرجراحت عاشق کے کم رفوہیں، کشتنی ہوں میں مرا لیحو ثواب گردن، مردم چشم پری بھی ہو جو خال گردن، بیٹھا ہے منہ پھلائے آتا نہیں سخن میں، اب تک ہے روح اپنی مسی لگ دہن میں، دوزخ میں جل رہا ہوں فردوس کے چمن میں، طوطی کے لب ہوئے بند آیا جو وہ سخن میں، نامے کو اب کے میں جو خط کہکشاں کروں، بیگانہ خو کو اپنے جو آشنا بناؤں، شستہ وصاف تراز آب گہر ہے وہ بدن بہر صف جنگ احمق میدان پکڑتے ہیں، نالے ہزار مرغ چمن کے دہن میں ہیں، میں کس کے پاس جاؤں مرا آشنا ہے کون، بلائیں لینے کے مائل ہیں ہاتھ پاس نہ آؤں، چشم بد دور وہ کافرہے طرحداروں میں، ہے لطف سیر شب ماہ ان حسینوں میں، انہیں تو شوق ہے چٹکی کا ہم نشیوں میں، وہ سمجھے شعرمرے جوکہ ہو ذہینوں میں، قطرے عرق کے چہرہ جاناں سے گرتے ہیں، دل عاشق بیاض رخسار ماہ دریاں، خاصہ علم الہی ترا مفہوم نہیںِ سرگرم نالہ مرغ خوش الحاں ہے ان دنوں (ردیف و) رکھ نہ دینا تھا پس از مرگ کفن میں مجھ کو، نام اب عشق کا لیویں گے نہ یاراں ہم تو، ٹوک ہر لحظ نہ اے ابربہاری ! مجھ کو، سحر ہے کوچ اسباب سفرتیار کر دیکھو، کبھی کام آئیں گے اپنا ہمیں تم یار کررکھو، یاں جب کہ بن چکا مری تصویر کا گلو، دو دن سے وہ سکل اپنی دکھاتا نہیں مجھ کو، اتنا تو صنم کوئی ستاتا نہیں مجھ کو، پیار سے دیکھ رہے ہے جو رخ قاتل کو، خون ناحق ہوں میں کیونکہ وہ کھووے مجھ کو، جو مجھ پہ ہو سوہو پہ زیاں یا ر کا نہ ہو، نہ برق گل نے جلایا مکان بلبل کو، ہزار رنج سفرہیں میاں راہ ابھی تو، ساتھ لے جائے کہاں عشق کی رسوائی کو، بس اس قدر بھی دشمن شعروسخن نہ ہو، معشوق جس سے وصل کی شب ہم سخن نہ ہو، یادن کو مرا تم غم جاں کا ہ نکالو، سوہاپہن آئے وہ جلانے مرے دل کو، جب تجھ ساماہ چہرہ کسی کے دو چارہو، اے فلک! تو نہ ستا مجھ سے غضب مارے کو، مستعد رہتے ہیں شب چرخ پہ نظارے کو، نہ پیارے اوپر اوپر مال ہر صبح ومساچکھو، رہے ہے گل سے افزوں بیم تاراج خزاں مجھ کو، نظر میں لالہ رنگیں ہے ہرزخم نہاں مجھ کو، بدگمانی جو ہوئی سیرچمن سے یار کو، حسن سے اپنے خبر شاید ہوئی اب یار کو، سبزہ خط دام میں لایا ہے زلف پار کو، کیا کڑھاؤں میں دکھا کر شیشہ چشم یارکو، گئے وہ دن کہ دل چاہے تھا گاہے سیردریا کو، خدائے پاک کی حکمت کو دیکھو، جو ہوتے حاسدوں کے حق کرے گا کامراں مجھ کو، میری طرف بھی اے بت یار دیکھ تو، روے عرق افشاں جو ترا جلو کناں ہو، ناداں بہت بھلا نہیں ہوشیار کچھ تو ہو، زلف مشکیں کہ وہ رکھتا ہے پریشاں اس کو (ردیف ہ) الجھا ہے گیسوؤں کے ترے بل سےآینہ، لپاہو جو سب زنگ سے آینہ، کیوں اطلس شفق کا نہ ہو جاوے تھان تہ، ڈھونڈنا دشوار ہے دریاے بے ساحل کی تہ، بستر خوں جس کا ہووے خنجر قاتل کہ تہ، خوبی حسن لالہ رنگ نہ پوچھ، نظرآیا جو کوئی خشک سحاب سادہ، اس گل کی خموشی ہے تکلم سے زیادہ، آئے تھے کوے یار میں جس آرزو کے ساتھ، نہیں مجنون دور از بیگاہ، سینے کا اٹھان اس کا ہے انجیر کا دانہ، صاف کرلے پہلے اپنا روزمرا فاختہ، گوشت ہی باقی رہا تجھ میں نہ ذرا فاختہ، (ردیف ی ۔ ے)جس پاس کہ ہوں حرص سیماب کی بوٹی، ہے مردمک چشم تو کمخواب کی بوٹی، بگوش یار گراں کیوں مری فغاں نہ لگے، وقت پیری ہوس عشق بتاں کیا کیجے، دل میں گر داغ محبت مچن آرا ہووے، ہر ایک عضو ترا خود ہے سیمبر چاندی، کوٹھے پہ آکے رخ سے جو وہ گوش کھول دے، بو سے میں جو کلائی اس کی ہنسی سے کافی، جب پشت دست حسرت ہم نے ابھی سے کاٹی، جب پشت دست حسرت ہم نے ابھی سے کاٹی، ملے نہ خاک میں تنہا بدن فقیروں کے، دکھلا دے ترا حسن ہو جادو گری اپنی، یار بن باغ سے ہم آتے ہیں دکھ پائے ہوئے، طاقت گئی فغاں کی کوئی آہ کیا کرے، نہ ہوا شاد دل اپنا تو گلستاں میں کبھی، ازبس ستم گری پہ دل یار گرم ہے، گرحور بھی عالم یہ ترے حسن کا دیکھے، گریہ آہوں کا دھواں گنبد گرداں بن جائے، دشمن دین ودل وجان نہ ہو اتنا بھی،
قطرہ گر اس گل کے روے خے فشاں سے گرپڑے، شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی، لیلٰی شاید سرپا اس کو لگا آتی ہے، عاشق وہی بس عشق میں جو جان لگا دے، سرکاٹ کرمرا جو وہ بے پیر پھینک دے، ہم تو چمکتے ہی ہوا ہوگئے، دیکھ اس نے مجھے دور سے شمشیرنکالی، دم شمشیر پر اس کے جو خوں عاشق کا ٹھہرا ہے، مقابل ہوویں اس کے مہروسہ کا کب یہ زہرا ہے، خواہش زخم دگر پھردل افگار میں ہے، کس کی مژگاں کی انی سینہ افگار میں ہے، واں گئے تم غیر کے گھر اور رہے آرام سے، چسم بددور کہ پھر کھینچی ہے تلوار اس نے، نالے نہ اپنے باپ اجابت پیرہن خراشی، وہ دوستی غیرپہ مغرور نہ ہوجائے، جی جس میں پس ہی جائے وہی چال روز ہے، ہمارے پاؤں کے نزدیک ہی زنجیر لکھی ہے، صراحی کو نہیں نسبت صفا میں تیری گردن سے، کھلتے ہی ہم تو باغ میں جوں گل فنا ہوئے، ہرگز نہ مراد دل معشوق برآوے، خط اس کو لکھ کہ نہ سطریں تمام چھیلیں گے، پرزے کیے جگرکے تیغ ادانے تیری، کروں کیونکر رخ جاناں پہ اپنی چشم ترسیدھی، وصل میں جوں جوں مزہ پاتا ہے جی، کسی کی یاد نہ یارب کسی کے دل کو لگے، کم رکو نازنیں !جو ذہن میں گزرے سو سچ کہہ دے، ہو کیونکر مصحف دل کی مرے تفیسر بے معنی، جوآیا واں سے اس نے مجھ سے کی تقریر بے معنی، کس کا روے آتشیں شب تھا دو چار آئینے سے، اشک نے راہ چشم ترلی ہے، چمن میں غش پہ غش آئے جو نہی بہار ہوئی، غم فراق سے اس کے اگر نہ خوکرتے، نسیم وادی مجنوں کو ہم جو بو کرتے، بلبل پہ جب نزاکت گل برگ ترکھلی، چاہت کا کسی کی جو کوئی ذکر کرے ہے، ہے زلف دراز اس بت شبکول کی رسی، پردے میں جو پنہاں ہے وہ پیدا نظر آوے، مدہراک کوئی کے خط نور پیراہن میں ہے، اے آہ شعلہ ورہو ناداں دھواں نہ ہووے، دکھائی تھی مگر مانی کو برش تیغ قاتل کی، کب تک شب ہجراں کی سیاہی نظر آوے، آسماں لوہے کا ہے اور یہ زمیں پتھر حی، کعبہ ودہر میں مسجود زمیں پتھر ہے، ہیں جو نازک تری مژگاں کے پری رو! کانٹے، ان کا جس دن سے پیا کرتے ہیں لوہے کانٹے، تن مجنوں میں ہیں یوں بن کے ترازو کانٹے، جاں خراشی کو دلا سب ہیں یہ گل روکانٹے، شرمندہ سمن ہے تری نازک بدنی سے، جیسے کہ ترے لب ہیں عقیق یمنی سے، چشم کے پردے کئے واں مے گلابی رنگ نے، نہ رشک کش ہوں جوا اے گل صبا بدن کو لگے، نزع میں ہیں ہم ٹک اس ساعت خدارا پوچھئے، کب سر کو مرے ٹھوکر وہ مار نہیں چلتی، کب آنکھ تری ان کو سنکار نہیں چلتی، جان آنکھوں سے شب وصل بہ وقت نکلی، ہم اگر ننگ کو غیرت کے گوارا کرتے، وے نہ تھے ہم کو کبھی شکوہ خوباں کرتے، نہ گئی پیش کوئی بات مری اس گل سے، آب سے یاں گوہر تر کا سا عالم تن یہ ہے، لب کا ترے ہے یار لکھونا سرخی پان ورنگ مسی، جویاں ہے سو پھیلائے ہوئے پاؤں پڑا ہے، مدت سے ہوں میں سرخوش صہبائے شاعری، ذرا سی دیکھ اس سینے کی تختی، پائی نرگس نے کہاں آنکھ نشیلی، گدھوں کے بازو لگتے ہیں یکسر بھرے بھرے، جو بندہ خاکی کہ فراموش زمیں ہے، گھر اپنا کیا ہے دل بے غم میں جو غم نے، تم جو روٹھے ہوصنم مجھ سے سزا ہے میری، ابرو کے تیرے صدقے شمشیر یہ ملی ہے، بے قراری ہے شب و روز فزوں کیا کیجے، کاپنے ہے سدا برق تری جنبش لب سے، حیراں سی جو نگاہیں رہ جاتیاں ہیں تری، ان منعموں کے ہاتھ سے طرز دہش اکثر گئی، جاویں گے ہم چمن سے نہ بن جی دیئے ہوئے، ہردم تہہ دنداں جو بت شوخ کا لب ہے، مجھ کو سحرخجل نہ کرے روے یار سے، قدر اوقات کی اپنی اگر انساں جانے، جسے وہ چشم تغافل شعار بھول گئی، دل زلف میں پھنسے تو خرابی لگی رہے، عقدہ دل وا ہوا اس ابروے خم دار ہے، ہر گوشہ جب اک قہر کا ٹکڑا نظر آوے، گراس تن نازک پہ ہوا گرم چلے گی، نظر بد کا گماں مجھ کو سوے کو کب ہے، تیرے بیمار کے بچنے کی توقع کب ہے، ناز میں ناز ہے انداز میں اک کرتب ہے، تم جو پوچھو ہو سدا حال رقیباں ہم سے، ہم قسم قتل پہ میرے ہے اجل جاناں سے، دست جنوں سرک کہ جب آئی ہے فصل گل، یہ بھی قسمت کہ نہاں یوں رخ دلبر ہوجائے ، قاصد تو کہیو اس سے میری زبانی اتنی ، کم چاندنی کا فرش نہیں سطح آب سے، وہاں حسن نے کیا جو تجاوز شباب سے، دست نسیم مس ہوجوبند نقاب سے، اک روز ترے کوچے سے ہم مرکے اٹھیں گے، اپنا نصیب خفتہ وبیدار ایک ہے، دیکھوں توترے حسن کو میں پھاڑ کے آنکھیں، فقط نہ گریہ خونیں سے آستیں تر ہے، فقط نہ خوں سے مرے تیری تیغ کیں تر ہے، گرملاقات کبھی اس سے یہ مقصود ہوئی، ہواے کوچہ قاتل پہ جان جاتی ہے، شب فراق میں ہم فاش اگر فغان کرتے، میری اس پر بھی نہ اس شہرمیں حسرت نکلی، حال میرا کچھ اس سے نامہ برنہیں کہتے، مردم جوتیری چشم کے بیمار ہوگئے، گرحنائی دست کا مضموں قلم سے گرپڑے، خامش ہیں ارسوط وفلاطوں مرے آگے، ہے جام طرب ساغر پر خوں مرے آگے، قلم سے مرا مدعا ٹپکتا ہے، ہے طلوع تثہ مےیا جہاں گردش میں ہے، تجھ بن کوئی ہرگز مرا محبوب نہیں ہے، سج دھج جو نئی اس نے بہ یکبار نکالی،آہ از جگر نرگس بیمار نکالی، آئے تھے ترے کوچے میں جو دور سے چل کے، پاؤں پہ گری اس کی جو تلواراگل کے، شبیہ اس نے جوکھینچی ہے صاف چوٹی کی، پھر ان دنوں وہ تیغ وسپر باندھنے لگے، نادیدہ جس کو جن وبشر چاہنے لگے، جائیو تو نہ ادھر کپڑے بدل کرمیلے، چھپایا تو نے منہ بینش ہوئی یوں دور آنکھوں سے، تیر کھا کر مگر آتا ہے یہ اس کے کو سے، پھر کرے سامان آئینہ ترا کس رو سے، جگرپہ صدمان غم سے ہے کچھ تو دل ہی دل میں ملال بھی ہے، وہ بحر خوبی ہے آفت جاں کسی میں ایسا جمال بھی ہے، ایک رہرو کا نظر آیا ہے نقش پا مجھے، جان سے آخر فراق یار نے مارا مجھے، گرگیا یوں چھوڑ کر اے شخ بے پروا مجھے، مل رہا ہوں خاک میں بستر کی کیا پروا مجھے، خوبرویوں کی حقیقت میں ہے چاہت باقی ، روبہ مغرب منہ سے کون الٹے نقاب استادہ ہے، اتنا تو کہے مرغ گرفتار سے کوئی، میلان طبع اس کو ادھر کھینچ لائی ہی،
بادصبا پیام گل صبح لائی ہی، گھر کا رستہ تو میرے تو نے میاں دیکھا ہے، دوسرا تجھ سا کم اے آفت جاں دیکھا ہے، قصہ مجنوں پسند خاطر جانا نہ ہے، ظلمت زدہ ہے سرختی ترے رنگ آل کی، آنکھوں کو اس کی دیکھ کے بیمار ہم ہوئے، گولی سے چوئے کوئی، کوئی تیرے سے ٹپکے، لخت دل چشم سے یا قوت کے رنگ آتا ہے، دہان غنچہ وش اس کے پہ گل کے یاس عاشق ہے، جہاں باہم محبت ہوگئی ہے، میں کعبہ جنوں کے جو نکلا حریم سے، کس نے رکھے تھے قفس ان پہ گرفتاروں کے، ان بتوں کے چال سے جاتے ہیں برباد آدمی، سودے میں تری تیغ کے جاں یار لگائی، لاک اس کے تصور نے جواک بارلگائی، کاجل میان چشم خماری لگائیے، یوں چاہیے تو ایک کٹاری لگائیے، شکل امید تو کب ہم کو نظر آتی ہے، کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے، نرمی بانش پرہم کو نہیں بھاتی ہے، پھر لگا سودا سا کچھ ہونے شروع سال سے، خوش نہیں ہوتا دل اب مذکور خط وخال سے، رہیں وہ اس چمن میں جن کو لطف آشیاں بھی ہے، جمع جب بالیں پہ میری آشنا سارے ہوئے، رفتہ رفتہ وہ بھی میرے آشنا بارے ہوئے، مقتل سے کل جوہم پس قاتل رواں ہوئے، اپنی تو رات گریہ وزاری میں کٹ گئی، وہ قاتل گو مری زنجیر کاٹے، زرہ جس شوخ کی شمشیر کاٹے، رہا میں غم زدہ جوں گرد کا رواں پیچھے، پھرا کہ منہ جو وہ دیکھے تھا ہرزماں پیچھے، یہ جوش غم ہے کہ پڑتا نہیں جی پیچھے، ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری، میں طرح ڈالوں اگر سوچ کر کہیں گھر کی، ہے مار خیز بلاؤں سے سب زمیں گھر کی، تمنائے زلف رسا ساتھ ہے، سوزناک آتی ہے ہر گھر سے صدا ساون کی، خون پیتا ہوں میں جس تیغ دونابی کے لیے، چشم تر ہے نہ رات بھیگی ہے، مینہہ کیا کیا نبات بھیگی ہے، جب زباں پر نبات بھیگی ہے، رباعیات، قطعات، مخمسات، سلام۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)

کلیات مصحفی جلد ہفتم

مرا خاموش رہنا وقت پیری گرچہ بہتر تھا، اے نالہ بس دماغ پریشاں نہ کر مرا، ہوا نہیں میں کچھ آج شیداکسی کے رخسار نازنیں کا، کب درد کی میں اپنے تدبیرنہیں کرتا، کیوں شور جنوں تو کچھ تدبیر نہیں کرتا، صاف چولی سے عیاں ہے بدن سرخ ترا، کیسہ مالی سے ہوا گل بدن سرخ ترا، اک تو تھاآتش سوزاں بدن سرخ ترا، رنگ پاں سے جو ہوا گل وہن سرخ ترا، گلوں سے دونوں پہنچے میرے دو طاؤس ہیں گویا، جوگستاخانہ کچھ اس سے میں بولا، پان ومسی سے لب پہ ترے عرصہ تنگ تھا، ذبح کے دم اس کو جو نخچیر منہ تکتا رہا، یاس وحسرت کا تولاشے پہ مرے غل ہوتا، دست بسلم مین اگر دامن قاتل ہوتا، کیوں نہ اس چشم کو سمجھے دل بیمار دوا، غم خوار مرا دل بھی تو اصلا نہیں ہوتا، بہ سوے قبلہ دلا! گر کبھو میں سجدہ کیا، صدمے سو دل پہ ہوئے ہم نے نہ جانا کیا تھا، گھٹا چھائی ہوا طوفاں اندھیرا، پیغام اجل نے جو دیا جاں شکنی کا، عمر آخر بہ ہوا داغ اس دل رنجور کا، ہو نہیں جاتا ہوں عاشق ہر شررکے نور کا، بیٹھے بیٹھے جو خیال رخ دلدار بندھا، زیبندہ ہے شبنم کا گل تر کو پسینا، اگرنہ دورفلک مجھ سے کج روی کرتا، اتنا ہوتا ہے کوئی غیر سے مالوف بھلا، کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا، گر رہے گا کوئی ذرہ تری بینائی کا، جب چمن میں جلوہ گر وہ قامت رعنا ہوا، نیرنگ حسن سے جو ترے متصل ہوا، اس مرگ کوکب نہیں میں سمجھا، مجھ کو چولھے میں نظر آتا ہے شعلہ طور کا، رات دن اپنا ہی میں خون جگر ہوں پیتا، معاملہ ہی عزیزوںسے میں نے صاف کیا، ذبح کے وقت وہ اندیشہ شمشیرمیں تھا، کب میں فکر غزل زلف پریشاں میں نہ تھا، سمجھ لے اس سے بدن کی خوبی نہ رنگ کچھ پوچھ اس بدن کا، سلمے میں نہ تھا نام خدا اتنا جھمگڑا، گور سے نکلے ہے اک شکل دہان اژدہا، چتون سے جس کی نکلے انداز دلبری کا، گرمی صید نے صحرائے ختن پھونک دیا، تیرے دیکھے سے نہ ایمان راہ مردم کا، پیا میں آکے جو شب تم نے طما نچا مارا، رہتا ہے ترے وصل کے ارمان میں کتنا، غم کا پیونداپنے مغزاستخواں سے ہوگیا، نہ بت خانوں میں ہے شور آج حسن انتخابی کا، بے سبب آزردہ صنم ہوگیا، شبنم کا قطرہ ہی نہ فقط آب دیدہ تھا، قاصد کے ہاتھ اگر میں خط وپیام بھیجا، لب ہلاتے ہی مرے مجھ سے توبیزار ہوا، ایک کرکے جب کرے ہے وہ اشارا دوسرا، پیچ وتاب رگ بسمل نہ ہو کیوں دام اپنا، صیاد تو بہار میں دل شاد کر چکا، گیا فلک کے پرے نالہ بلند اپنا، اپنا شب فراق ہوتاریک خانہ تھا، میں پاؤں پاؤں سطح زمیں پر روانہ تھا، بیمار چشم وگیسو ہو جی سے تنگ لٹکا، بعد کشتن زندہ میں نام وفا رہنے دیا، صبح محشر میں بھی یہ معجزہ پایا نہ گیا، سر سے عاشق کے تری تیغ کا سایا نہ گیا، بجاتا تالیاں ہراک دل شیدا کے پیچھے تھا، داد خواہ آیا ہے یاں زخم کسی کے تیر کا، کھینچیتا پہلے نہ گر فرہاد رخ تصویر کا، ہاتھ سے یار کا جب گوشہ داماں چھوٹا، رنج غربت میں بھی آرام بہت سا پایا، کبھی جو ہاتھ مرا مرے اختیار میں تھا، ہے قصد زخم دل کو اگراندمال کا، امتحاں کرنہ صنم اپنے تمنائی کا، وہ نہیں میں کہ صف جنگ میں ٹل جاؤں گا، نہ میں صحرا میں نہ گلش کو نکل جاؤں گا، دور سے آیا ہوں میں اورہے ارادہ دور کا، ہے شوق اس کو جو آنکھوں میں مری چکر کا، پاتا ہوں اس کے حسن کو مائل حجاب کا، رہتا ہے عیش مردم آبی کو آب کا، رکھا جو پھول کان میں اس نے گلاب کا، اے صورقیامت تو جگاتی ہے ہمیں کیا، ایسا بھی اتفاق زمانے میں کم ہوا، رک رک گئی سیاہی جو کاغذ بہم ہوا، واکس کے رخ پہ طرہ پر پیچ و خم ہوا، اے ستم کشتہ!گرفتار خط و خال ہے کیا، دل میرے سوگ میں مت کر تو برادر میلا، تیغ ابرو کا ہے تیغا تیری کیا ہی اچھا ہرگز مریض حضرت عیسی نہیں موا، وارداک شب جو گہرپوش ہو جانانہ ہوا، کیوں پھڑکتا ہے س میں اسے آزاد ہے کیا، کیا کہوں میں جو شب وصل کا انداز ہوا، ملتفت مجھ پہ جو وہ دلبر طناز ہوا، پردہ شرم رخ یار سے جب باز ہوا، گلی سی یار کی قاصد مرا شتاب آیا، ہم سرو رواں ہوتا ہم آپ رواں ہوتا، نام پر جس کے کہ نقاش قلم پھیرگیا، نگاہ لطف کے کرتے ہی رنگ انجمن بگڑا، دعا دینے سے میرے شب وہ ترک تیغ زن بگڑا، شب گیا بھاگ خیال رخ جاناں کیسا، ہے یہی شور جنوں اب کے تو زنداں کیسا، دن رات طفل اشک کبھی نوردیدہ تھا ، نے سبو سے جام صہبا بھرلیا، کیاجانے حال کیاہو دل بیقرار کا، کون ہے وہ جو نہ تربت مری ٹھکرا گزرا، کوئی نظر پڑا کیا، معشوق خوش ادا کیا، فصل گل شور جنوں ولولہ انگیز آیا، جس نے دیا خط اس کو پڑھ کروہ پھاڑ چیرا، کھایا تھا وہ جو میں نے نکلا وہ ریزہ ہیرا، عاشق سے بے دماغی اس گل کا ہے وتیرا، شب فراق میں میں آہ ونالہ کیا کرتا، میں درد بادہ کو لے مثل لالہ کیا کرتا، محشر کو تھا جو وعدہ دیدار آپ کا، اگرچہ روح سے پیوند آب وگل چھوٹا، (دریف ب) عیش جہاں بغل میں تمہاری سب آرہا، سایہ خال ذقن ہے مگس جام شراب، شیشہ مے جو نہ ہو ہم نفس جام شراب، قسمت دشمن نہ ہو یہ قصر منحوس حباب، نالے کو شب ہجرتو میں ضبط کیا خواب، صیاد کرکے قید گیا ہم کو بھول خوب، رہ جاؤ میرے گھر کبھی مہمان شب کی شب، تھا سر میں کچھ جنوں کا جو طغیاں تمام شب، (دریف ت) چلا مین ہو کے جو نہی کوے یار سے رخصت، بیمار کے تیرے کہوں کیا دل کی حقیقت، پھرفصل گل آئی ہوئے یہ نغمہ سرامست، بندے پہ ترحم کم اللہ کی یہ صورت، (ردیف ٹ) ٹانگن تو ترا آپ صنم جاوے ہے کھٹ کھٹ، تختہ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ، کیوں نہ دل نظارگی کا جاوے لوٹ، مارافیوں ہے یاں سدا چٹ، (ردیف ث) رنگ رخ کرتا ہے تیرا گل سے بحث، کس نے لکھا ہے ترے رخ پہ خط ریحاں ثلث (ردیف ج) جتنا میں راست خم میں کیا امتحان موج، مرد قانع کو خدا دیوے ہے بے منت گنج، (دریف چ) ہم رہے دل کے یاں ملال کے بیچ، یوں تو کیا کیا نہ کہا یار نے شب پیار کے بیچ، رنگ ثبات ہم نے نہ دیکھا چمن کے بیچ، جب وقت

نزع کھائے گی تیری زبان بیچ، جھیل سکتے نہیں رستم تری تلوار کی آنچ، (ردیف ح) دیکھ کر پیشانی دلبر کی لوح، ہم لے گئے بخاک سیہ آرزوے صبح، (ردیف خ) آتش غم نے دیا یوں دل بیتاب کو چرخ، شکل دیکھی جو تری نرگس بدخواب کی سرخ، آپ مردم کو کرے ہے تیرا چہرا گستاخ، دیکھے اس نور تجلی کو کوئی کیا گستاخ، کام کرتی ہی نہیں سنگ کی تعمیر میں میخ، میچو داغ تو ہے نالہ تاثیر میں میخ، (ردیف د) سمجھتا ہے اس کو خدائے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کیا خاک سوز دل سے کریں ہم فغاں بلند، کہا تھا ایک دن اس نے زبان سے "ناشاد" ! کرے گا ذبح تو پھر کیا درنگ ہے صیاد، اتنا رہے تو عاشق مشتاق سے بعید، مرہی جانا ہے دل زار کا قصد ، (ردیف ذ) خط کو شہد لب جاناں ہے لذیذ، (ردیف ر) زبان نالہ کش کس کی ہوئی سرگرم شیون پر، ہزاروں کے رکھی غمزے نے سیدھی تیغ گردن پر، دل معشوق ہے سختی میں غالب سنگ وآہن پر، ہوں میں در سپرو سفر طرز نظر، دیکھ تو اے چشم ترطرز نظر، کون سمجھا تھا کدھر طرزنظر، بے قراری ہے مری درپے تدبیرآخر، اپنے صاحب سے مجھے ہے یہ گلہ آخرکار، قلعہ مجمر میں دیکھ جنگ سپندر وشرر، قاتل نے پھر رکھی ہے سروہی جوسان پر، جنس دل پر گرتے ہیں کم مایہ زرد آن کر، چونک اٹھا تھا زیر خنجر حلق بسمل دیکھ کر، نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر، اس باغ بے ثبات میں فکر مکاں نہ کر، ذبح کر'پٹی مری آنکھوں کی قاتل ! کھول کر، لے جا چمن میں میری تو خاک کو اڑا کر، کتنوں کے سرپہ آفت لائے جبیں دکھا کر، میں کیا وہ ہوں جو زباں وا کروں تلاش بغیر، پہچنا قریب مرگ تو میں تجھ کو چاہ کر، تلوار کو سج کر تو نہ بن یار بہادر، ہے ترے عارض کی سرخی دین وایمان بہار، چھاؤنی چھانے پہ ہیں اس سال فرمان بہار، غنچوں نے ٹوپی پھینک دی ترچھی کلاء پر، کل شوق لے گیا تھا مجھے وعدہ گاہ پر، لذت شعر و سخن ہوتی ہے بیکاری میں اور، پاؤں رکھتا ہی نہ تھا گھر سےجو دلبر باہر، تھا رقص سملوں کا تری انجمن میں زور، ہوتا ہے جو اس باغ میں گل کوئی ہوا دار، عاشق ہی کا فقط نہ گریباں ہے تارتار، نہیں سیرگل وگلزار کی خاطر منظور، (ردیف ڑ) سرکا جوڑا اس کا ہے کالا پہاڑ، ہے بلا زلف پریشاں کی اکڑ (ردیف ز) ماتم میں سنی ہووے گی جنات کی آواز، دل تو لگتا ہے مرا کوچہ جاناں میں ہنوز، شوق فناجو ہے دل بیتاب میں ہنوز، منہ وصل کی شب مجھ کو دکھاتی نہیں ہرگز، تمام موسم برسات میں ہے صحرا سبز، (ردیف س) ہوچکا ناز، منہ دکھائیے بس، ساقیا! ہیں یہ تری چشم کے دوفنجاں بس (ردیف ش) کیا اسے پرواے پیرمے فروش، لوٹیں ہیں صبح تک شب غم میں بہار عیش، کرنہ اے عاقل تواتنا برطلسم خام رقص، (ردیف ض) ہرگز ملا نہ ہم کو کوئی آشنا غرض، (ردیف ط) ہووے شب فراق کی جب شام بے نقط، کیا کہوں اپنی میں تباہی خط، (ردیف ع) دیکھ لوں تک سعادت طالع، ایک ہی ہے اس کی فندق کی حنا کا رنگ وشمع، کب تلک پیش نظرہر دم نے فرہنگ وشمع، روبرو اس کے جو تھی شب فندق گل رنگ وشمع، شب کہ تھا حجرے میں وہ زیب مکاں تنگ وشمع، ہے دزد شمع کو سر تسخیر پائےشمع، لخت دل سے آہ ہے عاشق کی تیاری کی شمع، لخت دل سے آہ ہے عاشق کی تیاری کی شمع، اشک ریزاں سے لگن کو بخشے ہے دردانہ شمع، (ردیف غ) دوستو! بالیں یہ میری مت کرو روشن چراغ، رنگ گل سے آب جو میں ہے یہ عکس افگن چراغ، گودھرا ہو سامنے باآتش و روغن چراغ، سیکٹروں مضموں بجھاوے تا یہ بے روغن چراغ، آہ سے روشن کیا میں نے بیاباں میں چراغ، اپنا منہ دیکھے نہ کیوں شبہائے ہجراں میں چراغ، مت بیٹھیو یوں جا کے تو زنہار تہ تیغ، یکبار خصم جاں ہوا چرخ برٰں دریغ! نہ سرانجام ہوا کام کوئی ہائے دریغ، (ردیف ف) دوبات کی فرصت میں نہ گرپائی تو کیا لطف، (ردیف ق) میں دیکھ اپنے دل کو پریشاں شب فراق، صورت دکھا وصال کی بازی گرفراق، پھولی ہے زلف میں رخ گلفام کی شفق، چالیس برس کا ہی ہے چالیس کے لایق، باغباں! کھود نہ تو گرد گلستاں خندق، (ردیف ک) چھڑک، اے ابر! مری خاک پہ تو پانی ایک، تصویر کا وہاں کی ہوتا ہے رنگ نازک، (ردیف گ) بس کہ نکھرا ہے مرے طالع مسعود کا رنگ، رونے سے مرے دیدہ گریاں میں لگی آگ، جوں شعلہ نہ میرے تن عریاں میں لگی آگ، (ردیف ل) غرق خوں ہو مثل داغ لالہ میرا داغ دل، مر ہی گیا قفس میں نہ دیکھی بہار گل، وہ کھنڈ گیا ہی مقدر جو تھی تباہی گل، خانہ دہر کے باہر مجھے حرمت سے نکال، کیونکہ چھوٹے کمر نازک جاناں کا خیال، بزم میں اے گل سوبیٹھا تو نگھتا ہے کس کے پھول، جوں گل حرماں چمن سے ہاتھ آئے کس کے پھول، دلفریب اس رنگ سے کب ہیں چمن میں اسکے پھول، بنیی و گوش تک ترے پہنچے چشیم و گل، ہے روح وجسم خاکی انساں نیسم وگل، اس بن جو دیکھتا بھی ہوں گا ہے میں سوئتے گل، ہرگز نہ تیرے رو سا ہوا صاف روے گل ،کان دھر کر ترے کوچے میں سنوں زاری دل، (ردیف م) سستے تمہارے ہاتھ بکے اس قدر کو ہم، اب حرف "آہ" آہ نکلتا ہے لب سے کم، گرچہ تھے دیر سے پرواز کے انداز میں ہم، زاری سے میری کم نہیں کچھ زاری قلم، گلشن سے ترے حسن کے گلچیس نہ ہوئے ہم، آتے ہی چوری چوری جی میں سما گئے تم، دیتی تھی ہم کو نکہت گل کا پتا نسیم، منہ پھرامت قتل کو میرے ہے کافی پشت چشم، تصدیع کھینچتے ہیں اب اس گلستاں میں ہم، یہ تو کہاں کہ فرش مشجر ہے اور ہم، آہ اک دن جو پڑا اس دل ناشاد سے کام، خوب رویاں جو مرے درد کا چارا نہ کریں، نالے ہزار مرغ چمن کے دہن میں ہیں، نہ ترے حسن کے دن اور نہ بہاریں وہ رہیں، مہ وخورشید گراس رخ کا نظارا نہ کریں، بسمل نے وقت ذبح اگر آنکھیں کھولیاں، نرگس نے گل کی دید کو آنکھیں جو کھولیاں، اس نے لٹیں جو جعد معنبر کی کھولیاں، کبھی بہار کبھی ہےخزاں زمانے میں، دست تجرید میں مجنوں سے فزوں کوش ہوں میں، الماس سے بھرے ہوئے اس گل کے کان ہیں، دل جا کے رہا سایہ مژگاں میں توکےدن، سوبلا عشق کے آغاز میں ہیں، آنکھیں نہ کیونکر

گوشہ داماں سے دور ہوں، اس تیغ سے وب بچ گئے خوں میں نہایا ایک میں، کیوں تڑپتے ترے بسمل ہیں یہ مرجائیں کہیں، ہم گرفتار بلا جی سے گزرجائیں کہیں، بہت سا ابتدائے عشق میں غم کو چھپایا میں، آتے ہی قفس میں جو یہ گھر بھول گئے ہیں، تیغ زباں کو اپنی اگر میں علم کروں، مجھ پر تو ملتفت ہی نہیں یار کیا کروں، ہوگیا ہے نقش خوں سے تیشہ فرہاد میں، بن چھڑے واں ہے رخ پرتوفیر اشک جاناں، عاض کا گلکدہ ہے جاگیر اشک جاناں، مسی سے ہوگیا ہے بلاے سیہ دہن، نہ مصاحبت مری گرم ہے نہ میں شہ کا یاروندیم ہوں، خواہش روے نکو دل سے تو جانے کی نہیںِ صفائے سینہ صفائے گلو سے بھی افزوں، قابل علاج کے مرا درد نہاں نہیں، پھررت آئی ہولی کی ہرکوچہ دفیس رنگیں بجیں، بزم سرودخوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں، رنگ رخ چمکا ہے پھر یار کامے نوشی میں، گوش بن جاتے ہیں مجلس میں ذہن جتنے ہیں، سخت جاں سوزی دشمن ہے گداز آہن، جز سکندر نہ ہوا آئینہ ساز آہن، آہستہ رکھ قدم کہ تہ خاک لوگ ہیں، اک دم گلے سے لگ کر بوس وکنار کرلیں، اس کا پیچھا چھوڑتا ہے یہ دل بسمل کہاں، حلت ہے مے کی ماہ صیام خیال میں، نہ یہ طاقت کہ بزم اس کی سے اٹھ کر اپنے گھرجاؤں، قہر آفت ہوتے ہیں سچ ہے یہ بالا پن کے دن، میں ہی جانوں ہوں جو کچھ مجھ سے ادائیں کی ہیں، کسی سے ہم نے جو آنکھیں ملائیاں ہوتیں، زباں بریدہ سے اے ہمصفیر! ہم بھی ہیں، شب ہجراں کہوں کیا مجھ پہ کیا کیا آفتیں پڑیاں، اک پل میں چشم ترنے دریا بہا دیے ہیں، ہم جو تنہائی میں فریاد کیا کرتے ہیں، گرمیاں عشق کی ایام حقیری میں کہاں، رکھوں ہوں منہ توولے قابل کلام نہیں، دست زندہ ہی کے زیبا ہے بدن میں آستیں، کس طرح اپنے دلبر جانی سے میں ملوں، کھتا ہوا زمیں پہ چکر پھرا ہوں میں، اس کا سبب یہ ہے جو میں گرم فغاں نہیں، جاے بروں شدنفس پر دخاں نہیںِ کیا غم ہے گرجراحت عاشق کے کم رفوہیں، کشتنی ہوں میں مرا لیحو ثواب گردن، مردم چشم پری بھی ہو جو خال گردن، بیٹھا ہے منہ پھلائے آتا نہیں سخن میں، اب تک ہے روح اپنی مسی لگ دہن میں، دوزخ میں جل رہا ہوں فردوس کے چمن میں، طوطی کے لب ہوئے بند آیا جو وہ سخن میں، نامے کو اب کے میں جو خط کہکشاں کروں، بیگانہ خو کو اپنے جو آشنا بناؤں، شستہ وصاف تراز آب گہر ہے وہ بدن بہر صف جنگ احمق میدان پکڑتے ہیں، نالے ہزار مرغ چمن کے دہن میں ہیں، میں کس کے پاس جاؤں مرا آشنا ہے کون، بلائیں لینے کے مائل ہیں ہاتھ پاس نہ آؤں، چشم بد دور وہ کافرہے طرحداروں میں، ہے لطف سیر شب ماہ ان حسینوں میں، انہیں تو شوق ہے چٹکی کا ہم نشیوں میں، وہ سمجھے شعرمرے جوکہ ہو ذہینوں میں، قطرے عرق کے چہرہ جاناں سے گرتے ہیں، دل عاشق بیاض رخسار ماہ دریاں، خاصہ علم الہی ترا مفہوم نہیںِ سرگرم نالہ مرغ خوش الحاں ہے ان دنوں (ردیف و) رکھ نہ دینا تھا پس از مرگ کفن میں مجھ کو، نام اب عشق کا لیویں گے نہ یاراں ہم تو، ٹوک ہر لحظ نہ اے ابربہاری ! مجھ کو، سحر ہے کوچ اسباب سفرتیار کر دیکھو، کبھی کام آئیں گے اپنا ہمیں تم یار کررکھو، یاں جب کہ بن چکا مری تصویر کا گلو، دو دن سے وہ سکل اپنی دکھاتا نہیں مجھ کو، اتنا تو صنم کوئی ستاتا نہیں مجھ کو، پیار سے دیکھ رہے ہے جو رخ قاتل کو، خون ناحق ہوں میں کیونکہ وہ کھووے مجھ کو، جو مجھ پہ ہو سوہو پہ زیاں یا ر کا نہ ہو، نہ برق گل نے جلایا مکان بلبل کو، ہزار رنج سفرہیں میاں راہ ابھی تو، ساتھ لے جائے کہاں عشق کی رسوائی کو، بس اس قدر بھی دشمن شعروسخن نہ ہو، معشوق جس سے وصل کی شب ہم سخن نہ ہو، یادن کو مرا تم غم جاں کا ہ نکالو، سوہاپہن آئے وہ جلانے مرے دل کو، جب تجھ ساماہ چہرہ کسی کے دو چارہو، اے فلک! تو نہ ستا مجھ سے غضب مارے کو، مستعد رہتے ہیں شب چرخ پہ نظارے کو، نہ پیارے اوپر اوپر مال ہر صبح ومساچکھو، رہے ہے گل سے افزوں بیم تاراج خزاں مجھ کو، نظر میں لالہ رنگیں ہے ہرزخم نہاں مجھ کو، بدگمانی جو ہوئی سیرچمن سے یار کو، حسن سے اپنے خبر شاید ہوئی اب یار کو، سبزہ خط دام میں لایا ہے زلف پار کو، کیا کڑھاؤں میں دکھا کر شیشہ چشم یارکو، گئے وہ دن کہ دل چاہے تھا گاہے سیردریا کو، خدائے پاک کی حکمت کو دیکھو، جو ہوتے حاسدوں کے حق کرے گا کامراں مجھ کو، میری طرف بھی اے بت یار دیکھ تو، روے عرق افشاں جو ترا جلو کناں ہو، ناداں بہت بھلا نہیں ہوشیار کچھ تو ہو، زلف مشکیں کہ وہ رکھتا ہے پریشاں اس کو (ردیف ہ) الجھا ہے گیسوؤں کے ترے بل سےآینہ، لپاہو جو سب زنگ سے آینہ، کیوں اطلس شفق کا نہ ہو جاوے تھان تہ، ڈھونڈنا دشوار ہے دریاے بے ساحل کی تہ، بستر خوں جس کا ہووے خنجر قاتل کہ تہ، خوبی حسن لالہ رنگ نہ پوچھ، نظرآیا جو کوئی خشک سحاب سادہ، اس گل کی خموشی ہے تکلم سے زیادہ، آئے تھے کوے یار میں جس آرزو کے ساتھ، نہیں مجنون دور از بیگاہ، سینے کا اٹھان اس کا ہے انجیر کا دانہ، صاف کرلے پہلے اپنا روزمرا فاختہ، گوشت ہی باقی رہا تجھ میں نہ ذرا فاختہ، (ردیف ی ۔ ے)جس پاس کہ ہوں حرص سیماب کی بوٹی، ہے مردمک چشم تو کمخواب کی بوٹی، بگوش یار گراں کیوں مری فغاں نہ لگے، وقت پیری ہوس عشق بتاں کیا کیجے، دل میں گر داغ محبت مچن آرا ہووے، ہر ایک عضو ترا خود ہے سیمبر چاندی، کوٹھے پہ آکے رخ سے جو وہ گوش کھول دے، بو سے میں جو کلائی اس کی ہنسی سے کافی، جب پشت دست حسرت ہم نے ابھی سے کاٹی، جب پشت دست حسرت ہم نے ابھی سے کاٹی، ملے نہ خاک میں تنہا بدن فقیروں کے، دکھلا دے ترا حسن ہو جادو گری اپنی، یار بن باغ سے ہم آتے ہیں دکھ پائے ہوئے، طاقت گئی فغاں کی کوئی آہ کیا کرے، نہ ہوا شاد دل اپنا تو گلستاں میں کبھی، ازبس ستم گری پہ دل یار گرم ہے، گرحور بھی عالم یہ ترے حسن کا دیکھے، گریہ آہوں کا دھواں گنبد گرداں بن جائے، دشمن دین ودل وجان نہ ہو اتنا بھی،

قطرہ گر اس گل کے روے خے فشاں سے گرپڑے، شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی، لیلٰی شاید سرپا اس کو لگا آتی ہے، عاشق وہی بس عشق میں جو جان لگا دے، سرکاٹ کرمرا جو وہ بے پیر پھینک دے، ہم تو چمکتے ہی ہوا ہوگئے، دیکھ اس نے مجھے دور سے شمشیرنکالی، دم شمشیر پر اس کے جو خوں عاشق کا ٹھہرا ہے، مقابل ہوویں اس کے مہروسہ کا کب یہ زہرا ہے، خواہش زخم دگر پھردل افگار میں ہے، کس کی مژگاں کی انی سینہ افگار میں ہے، واں گئے تم غیر کے گھر اور رہے آرام سے، چسم بددور کہ پھر کھینچی ہے تلوار اس نے، نالے نہ اپنے باپ اجابت پیرہن خراشی، وہ دوستی غیرپہ مغرور نہ ہوجائے، جی جس میں پس ہی جائے وہی چال روز ہے، ہمارے پاؤں کے نزدیک ہی زنجیر لکھی ہے، صراحی کو نہیں نسبت صفا میں تیری گردن سے، کھلتے ہی ہم تو باغ میں جوں گل فنا ہوئے، ہرگز نہ مراد دل معشوق برآوے، خط اس کو لکھ کہ نہ سطریں تمام چھیلیں گے، پرزے کیے جگرکے تیغ ادانے تیری، کروں کیونکر رخ جاناں پہ اپنی چشم ترسیدھی، وصل میں جوں جوں مزہ پاتا ہے جی، کسی کی یاد نہ یارب کسی کے دل کو لگے، کم رکو نازنیں !جو ذہن میں گزرے سو سچ کہہ دے، ہو کیونکر مصحف دل کی مرے تفیسر بے معنی، جوآیا واں سے اس نے مجھ سے کی تقریر بے معنی، کس کا روے آتشیں شب تھا دو چار آئینے سے، اشک نے راہ چشم ترلی ہے، چمن میں غش پہ غش آئے جو نہی بہار ہوئی، غم فراق سے اس کے اگر نہ خوکرتے، نسیم وادی مجنوں کو ہم جو بو کرتے، بلبل پہ جب نزاکت گل برگ ترکھلی، چاہت کا کسی کی جو کوئی ذکر کرے ہے، ہے زلف دراز اس بت شبکول کی رسی، پردے میں جو پنہاں ہے وہ پیدا نظر آوے، مدہراک کوئی کے خط نور پیراہن میں ہے، اے آہ شعلہ ورہو ناداں دھواں نہ ہووے، دکھائی تھی مگر مانی کو برش تیغ قاتل کی، کب تک شب ہجراں کی سیاہی نظر آوے، آسماں لوہے کا ہے اور یہ زمیں پتھر حی، کعبہ ودہر میں مسجود زمیں پتھر ہے، ہیں جو نازک تری مژگاں کے پری رو! کانٹے، ان کا جس دن سے پیا کرتے ہیں لوہے کانٹے، تن مجنوں میں ہیں یوں بن کے ترازو کانٹے، جاں خراشی کو دلا سب ہیں یہ گل روکانٹے، شرمندہ سمن ہے تری نازک بدنی سے، جیسے کہ ترے لب ہیں عقیق یمنی سے، چشم کے پردے کئے واں مے گلابی رنگ نے، نہ رشک کش ہوں جوا اے گل صبا بدن کو لگے، نزع میں ہیں ہم ٹک اس ساعت خدارا پوچھئے، کب سر کو مرے ٹھوکر وہ مار نہیں چلتی، کب آنکھ تری ان کو سنکار نہیں چلتی، جان آنکھوں سے شب وصل بہ وقت نکلی، ہم اگر ننگ کو غیرت کے گوارا کرتے، وے نہ تھے ہم کو کبھی شکوہ خوباں کرتے، نہ گئی پیش کوئی بات مری اس گل سے، آب سے یاں گوہر تر کا سا عالم تن یہ ہے، لب کا ترے ہے یار لکھونا سرخی پان ورنگ مسی، جویاں ہے سو پھیلائے ہوئے پاؤں پڑا ہے، مدت سے ہوں میں سرخوش صہبائے شاعری، ذرا سی دیکھ اس سینے کی تختی، پائی نرگس نے کہاں آنکھ نشیلی، گدھوں کے بازو لگتے ہیں یکسر بھرے بھرے، جو بندہ خاکی کہ فراموش زمیں ہے، گھر اپنا کیا ہے دل بے غم میں جو غم نے، تم جو روٹھے ہوصنم مجھ سے سزا ہے میری، ابرو کے تیرے صدقے شمشیر یہ ملی ہے، بے قراری ہے شب و روز فزوں کیا کیجے، کاپنے ہے سدا برق تری جنبش لب سے، حیراں سی جو نگاہیں رہ جاتیاں ہیں تری، ان منعموں کے ہاتھ سے طرز دہش اکثر گئی، جاویں گے ہم چمن سے نہ بن جی دیئے ہوئے، ہردم تہہ دنداں جو بت شوخ کا لب ہے، مجھ کو سحرخجل نہ کرے روے یار سے، قدر اوقات کی اپنی اگر انساں جانے، جسے وہ چشم تغافل شعار بھول گئی، دل زلف میں پھنسے تو خرابی لگی رہے، عقدہ دل وا ہوا اس ابروے خم دار ہے، ہر گوشہ جب اک قہر کا ٹکڑا نظر آوے، گراس تن نازک پہ ہوا گرم چلے گی، نظر بد کا گماں مجھ کو سوے کو کب ہے، تیرے بیمار کے بچنے کی توقع کب ہے، ناز میں ناز ہے انداز میں اک کرتب ہے، تم جو پوچھو ہو سدا حال رقیباں ہم سے، ہم قسم قتل پہ میرے ہے اجل جاناں سے، دست جنوں سرک کہ جب آئی ہے فصل گل، یہ بھی قسمت کہ نہاں یوں رخ دلبر ہوجائے ، قاصد تو کہیو اس سے میری زبانی اتنی ، کم چاندنی کا فرش نہیں سطح آب سے، وہاں حسن نے کیا جو تجاوز شباب سے، دست نسیم مس ہوجوبند نقاب سے، اک روز ترے کوچے سے ہم مرکے اٹھیں گے، اپنا نصیب خفتہ وبیدار ایک ہے، دیکھوں توترے حسن کو میں پھاڑ کے آنکھیں، فقط نہ گریہ خونیں سے آستیں تر ہے، فقط نہ خوں سے مرے تیری تیغ کیں تر ہے، گرملاقات کبھی اس سے یہ مقصود ہوئی، ہواے کوچہ قاتل پہ جان جاتی ہے، شب فراق میں ہم فاش اگر فغان کرتے، میری اس پر بھی نہ اس شہرمیں حسرت نکلی، حال میرا کچھ اس سے نامہ برنہیں کہتے، مردم جوتیری چشم کے بیمار ہوگئے، گرحنائی دست کا مضموں قلم سے گرپڑے، خامش ہیں ارسوط وفلاطوں مرے آگے، ہے جام طرب ساغر پر خوں مرے آگے، قلم سے مرا مدعا ٹپکتا ہے، ہے طلوع تثہ مےیا جہاں گردش میں ہے، تجھ بن کوئی ہرگز مرا محبوب نہیں ہے، سج دھج جو نئی اس نے بہ یکبار نکالی،آہ از جگر نرگس بیمار نکالی، آئے تھے ترے کوچے میں جو دور سے چل کے، پاؤں پہ گری اس کی جو تلواراگل کے، شبیہ اس نے جوکھینچی ہے صاف چوٹی کی، پھر ان دنوں وہ تیغ وسپر باندھنے لگے، نادیدہ جس کو جن وبشر چاہنے لگے، جائیو تو نہ ادھر کپڑے بدل کرمیلے، چھپایا تو نے منہ بینش ہوئی یوں دور آنکھوں سے، تیر کھا کر مگر آتا ہے یہ اس کے کو سے، پھر کرے سامان آئینہ ترا کس رو سے، جگرپہ صدمان غم سے ہے کچھ تو دل ہی دل میں ملال بھی ہے، وہ بحر خوبی ہے آفت جاں کسی میں ایسا جمال بھی ہے، ایک رہرو کا نظر آیا ہے نقش پا مجھے، جان سے آخر فراق یار نے مارا مجھے، گرگیا یوں چھوڑ کر اے شخ بے پروا مجھے، مل رہا ہوں خاک میں بستر کی کیا پروا مجھے، خوبرویوں کی حقیقت میں ہے چاہت باقی ، روبہ مغرب منہ سے کون الٹے نقاب استادہ ہے، اتنا تو کہے مرغ گرفتار سے کوئی، میلان طبع اس کو ادھر کھینچ لائی ہی،

بادصبا پیام گل صبح لائی ہی، گھر کا رستہ تو میرے تو نے میاں دیکھا ہے، دوسرا تجھ سا کم اے آفت جاں دیکھا ہے، قصہ مجنوں پسند خاطر جانا نہ ہے، ظلمت زدہ ہے سرختی ترے رنگ آل کی، آنکھوں کو اس کی دیکھ کے بیمار ہم ہوئے، گولی سے چوئے کوئی، کوئی تیرے سے ٹپکے، لخت دل چشم سے یا قوت کے رنگ آتا ہے، دہان غنچہ وش اس کے پہ گل کے یاس عاشق ہے، جہاں باہم محبت ہوگئی ہے، میں کعبہ جنوں کے جو نکلا حریم سے، کس نے رکھے تھے قفس ان پہ گرفتاروں کے، ان بتوں کے چال سے جاتے ہیں برباد آدمی، سودے میں تری تیغ کے جاں یار لگائی، لاک اس کے تصور نے جواک بارلگائی، کاجل میان چشم خماری لگائیے، یوں چاہیے تو ایک کٹاری لگائیے، شکل امید تو کب ہم کو نظر آتی ہے، کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے، نرمی بانش پرہم کو نہیں بھاتی ہے، پھر لگا سودا سا کچھ ہونے شروع سال سے، خوش نہیں ہوتا دل اب مذکور خط وخال سے، رہیں وہ اس چمن میں جن کو لطف آشیاں بھی ہے، جمع جب بالیں پہ میری آشنا سارے ہوئے، رفتہ رفتہ وہ بھی میرے آشنا بارے ہوئے، مقتل سے کل جوہم پس قاتل رواں ہوئے، اپنی تو رات گریہ وزاری میں کٹ گئی، وہ قاتل گو مری زنجیر کاٹے، زرہ جس شوخ کی شمشیر کاٹے، رہا میں غم زدہ جوں گرد کا رواں پیچھے، پھرا کہ منہ جو وہ دیکھے تھا ہرزماں پیچھے، یہ جوش غم ہے کہ پڑتا نہیں جی پیچھے، ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری، میں طرح ڈالوں اگر سوچ کر کہیں گھر کی، ہے مار خیز بلاؤں سے سب زمیں گھر کی، تمنائے زلف رسا ساتھ ہے، سوزناک آتی ہے ہر گھر سے صدا ساون کی، خون پیتا ہوں میں جس تیغ دونابی کے لیے، چشم تر ہے نہ رات بھیگی ہے، مینہہ کیا کیا نبات بھیگی ہے، جب زباں پر نبات بھیگی ہے، رباعیات، قطعات، مخمسات، سلام۔

In Urdu

Hbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.