Image from Google Jackets

کلیات مصحفی جلد دوم : مصحفی، غلام ہمدانی

By: Contributor(s): Material type: TextTextPublication details: Lahore : Majlis Taraqi Adab, 1969.Description: 459 pagesSubject(s): DDC classification:
  • 891.4391 م ص ح 1969
Contents:
(غزلیات) دریف الف: خورشید کو سا یے میں زلفوں کے چھپا رکھا، پیغام وسلام اس نے ذرا بھی نہیں لکھا، ترا خدنگ نگہ جس کے دل کے پار ہوا، لطف کیا جب بہ سر راہ عیاں ہو جانا، مرض عشق سے گر اب کے سنبھل جاؤں گا، بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا، صانع نے جو خم ابروئے دلدار میں رکھا، جس دم کہ وہ کمر میں رکھ کرکٹار نکلا، ہوا شعلہ جو میری آہ آتش ناک سے پیدا، رونے نے میرے ہوش تو طوفاں کا کھودیا، شعلہ آتش پہ جب میں اپنا داماں رکھ دیا، دل کب متحمل ہو جدائی کے الم کا، نالہ مرغ سحر دل میںاثر کر ہی گیا، یک چند اس طرف جو میں جانے سے رہ گیا، مجھ تک یہ نہ آوے تمھیں منظور یہی تھا، جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا، دیکھ کر اس جلوے کوتیرے گر ہی پڑا بے خود ہوموسٰی، آیا جویاں تو ووں ہی بہانے سے اٹھ گیا، کچھ آرزو نہ تھی بت و بتخانہ دیکھنا، سخت مشکل ہے اب اس کوچے میں جانا اپنا، تیرکرشمہ دل سے مرے پار ہوگیا، کیا کہیے یار تھا سو وہ اغیارہوگیا، اس کو دکھلائیو نقشہ مری حیرانی کا ،رخ پہ عالم ہے و ہ زلفوں کی پریشانی کا ،منہ دیکھوں میں روز عید تیرا، میں اس صنم ماہ لقا کو نہیں دیکھا، ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا، جانے سے جس گلی کے مجھے عارہ رہا، ملنے سے میرے اس کوز بس عار ہی رہا، باغباں دیکھ کے کل ضبط نفس بلبل کا، خوبی کو تری کس نے میرجاں نہ سراہا، ہے کسون پر جو ذرا وہ بت بے باک چڑھا، اس نے جس وقت کہ خال اپنے زنخداں پہ رکھا ، جس سنگ پہ خون کوہ کن تھا، رات پردے سے منہ جو کسو کانکلا، شب ترے کو چے مین کوئی کہتے ہیں مرکررہ گیا، آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ، کہوں کیا ہجر میں صبر و شکیبائی پہ کیا گزرا، جہاں اندیشہ اغیار کا دن رات ہے کھٹکا، پردہ اٹھا کے اس نے جو سینہ دکھا دیا، کیا تعجب ہے اگر پھر کے ہو جینا میرا، کاٹ کر سرمیں تری راہ میں دھرجاؤں گا، میں زلف منہ میں لی تو کہا "مار کھائے گال؟" عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا، محنت کے لیے ، یا ہوئے آرام کو پیدا، حسن وخوبی میں تجھے یوسف ثانی سمجھا، میں تو دیکھا نہیں اس جلوہ گری کا سونا، شب کو نظروں میں خیال رخ دلداررہا، کون سے روز ترا وعدہ دیدار نہ تھا، شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا، کیوں کھینچ کےتیغا مجھے اک بار لگایا، تو الیسا غیر کے حصے میں آیا، غم کی شدت میں کروں فکر میں شیدائی کیا، مجھ سے مطلب ہے ترا اے شب تنہائی کیا، غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا، حسن اس کا اب سماں کچھ اور دکھلائےگا، ہاتھ میرے نہ کبھی دامن دلدارلگا، ایک ہچکی مین ٹھکانے دل بیمار لگا، پاس میرے وہ ترا پیار سے آنا نہ رہا، کوچے سے ترے دل مجھے خانے نہیں دیتا، قصدکرتا ہوں جو اس در سے کہیں جانے کا، دم آخر ہے یہ تجھ کو بھی روا مل جانا، جاؤ اس کو میں تو اک اک سے جدا مل جانا، نہ مرے دل کو گرفتار کرو تم اپنا، رہتاہوں تجھے دیکھ کے میں ہاتھ ہی ملتا، توجاتے سر رہ جس کو کہ نظرآیا، دنیا میں جب تلک کہ میں اندوہ گیں رہا، رونے میں کام بس کہ شب اے ہم نشیں رہا، ہر روز رہا مجھے سے شب تارکا وعدا، ہے یہ دل دیوانہ تو پروانہ پری کا، ہر دم ہے تیرے حسن کا حیران دوسرا، تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا، کرتا تھا کہیں وصف میں اس غنچہ دہن کا، کسی جنگل کے گل بوٹے سے جی میرا بہل جاتا، چاہنا یوں نہ دل نشیں ہوگا، ہائے اس کا ہمک کر اٹھ جانا، اس دم سرد سے خطرہ نہ اگر کیجیے گا، ابن مریم آسماں کا میں زمیں کا ہورہا، جفا و جور نت کے اب تو یہ دل سہ نہیں سکتا، جو تو اسے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووے گا، ہوا ہے دشمن جاں بس کہ باغباں میرا، کسو بھی طرح گزارا نہیں جہاں میرا، زلفین دکھا کے اس نے عالم کو مارڈالا، بلبل خوش صفیر ہوں گلشن روز گار کا، ٹھکانااس جگہ ہوتا نہیں اس غم کے مارے کا، دامن اس شوخ نے کھینچا جو جھٹک کراپنا، ہے آنسوؤں سے غوغاان پر کبوتروں کا، اشکوں سے میرے لخت جگر دور رہ گیا، غیر کے گھر میں یار رہنےلگا پہلو سے اٹھ کے شب جو وہ آرام جاں گی، اک حرف کن میں جس نے کون ومیاں بنایا، ہے یہاں کس کو دماغانجمن آرائی کا، گرچہ مذکور ہے ہر جا تری رعنائی کا، داغ دیکھے تھا کھڑا لالہ صحرائی کا، قاصد اُس کو سے پھیرایا نہ پھرا ہووے گا، د ل گرایا جگر اُس دیدہ گریاں سے چوا، (دریف ب) دنیا سے اپنے یار کو لدوائیے شتاب، شاید کسو نے پھر اُسے برہم کیا ہے اب، ہم کودینے لگے تم چھیڑکے گالی کیا خوب، بام پر اس کے جو ہوتا گزر نالہ شب، کیوں نکلتا سوتے ہوئے منہ سے اپنے یا نصیب، باتیں بنا کے مجھ کو شیدا نہ کیجیے صاحب، کس دن گلی سے اُس کی پھرا نامہ بر شتاب، غیروں سے میاں تیری ملاقات نہیں خوب، دن کو تو نہیں کوئی ملاقات کی تقریب، جی چلے تیرا تولے چکھ تو بھی اے مست شراب، یہ حالت ہے کہ دل سینے می گھبراتا ہے بے موجب، دل ویوانہ اس کی گالیاں کھاتا ہے بے موجب، (دریف پ) کھلکھلا کر نہ ہنسا کیجیے آپ، (دریف ت)البتہ فن عشق میں ہوجس کو مہارت، ہر چند اس نے تیری طرف سے بنائی بات، خدا نے حور وپری کو کب ایسی دی صورت،منعم توہورہا ہے گرفتار سنگ و خشت، ہرگز کھلا نہ شیخ پہ اسرار سنگ وخشت، خواب میں آئے ہے جب اُس کے میاں آدھی رات، اے زبان تیشہ کہہ کچھ کوہ کن کی سرگزشت، ، میاں عالم ہستی اگر ہے سجدہ درست، گلی میں اس کی نہ پوچھو کدھرہے سجدہ درست، تھی میرے ہاتھ ہی میں تمہاری کمر تو رات، ہائے اُس کے وہ ننھے ننھے بات، رخسار پر ہے زلف پریشان کی اوقات، (دریف ٹ) لے کے دل زلف میں رکھا ہے لپیٹ، آئی ہے یہ کچھ آہ کے صدمے سے دل پہ چوٹ، (دریف ث) جیسے کسی چیز پر ہوتی ہے طفلاں میں بحث، یار ملتا ہے کوئی یہ آہ زاری ہے عبث، (دریف ج) تا بہ فلک ہوگئی اشک کے طوفاں کی موج، نہ تو اس شہر میں دوا کارواج، یوں ہوا معلوم ہم کو دل کی بے تابی سے
آج، عیسی سے کیونکر ہو دل بیمار کا علاج، نکلا ہے سرخ پوش ہو وہ نوجوان آج، خسروں کے سر سے کب جاؤے ہو اے تخت و تاج، (دریف چ) کچھ ان دنوں ہے اور ہوا گلستاں کے بیچ، ہم کو ناکامی مطالع نے رکھا کام کے بیچ، لے گیا شوق قفس کو دل ناکام کے بیچ، جی جگر سب ہو گیا قاتل مرے لوہو کا خرچ، (دریف ح)ملتے ملتے ووں ہی ہوجاتا ہے بیگانے کی طرح، ہوتی ہے کیا یہی مرے صاحب حیا کی طرح، تا چند کرتے خدمت گل باغباں کی طرح، رات کاٹی ہم نے تجھ بن جس طرح، سینے سے جلوہ گر ہے ترے ابتدائے صبح، گالیاں دیتے ہو تم مجھ کو میری جان صریح، (دریف خ)اپنا تو مرغ دل ہے گرفتارحسن شوخ، اس مست کو ہوا ہے جو شوق شراب و شیخ، لباس پہنے ہے اکثر وہ شوخ پر فن سرخ، کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اسے شیِخ، (دریف د) کس کے یار آئے تجھے دست نگاریں فرہاد،آئنے کو ہے ترے حسن کی خدمت شاید، ناوک سے نگہ کی ترے ہرگز نہ بچا صید، کس طرح جھانکے کوئی واں کرکے اب گردن بلند،(دریف ذ) ہم نے خط لکھنے کو جب اس کے اٹھایا کاغذ، (دریف ر) آیا جووہ کل تیر و کماں ہاتھ میں لے کر، آتا ہے جی میں یوں کہ کسی گل کو تاڑ کر، ہم کو ترساتے ہو تم کیوں یہ ادا دکھلا کر، ہم نے لٹا دیا ہے گھر بار تیری خاطر، نکلے ہے یہی خاطر دل کے مرے ساز سے باہر، وہ دن گئے کہ تھا تو شیریں مقالیوں پر، دیکھیے کیا جی پہ گزرے نوبہار آئی ہے پھر، سر پہ کل طرے کاگڑوا رکھ کے لائی ہے بہار، رہتا ہے دل اُس زلف پریشاں میں گرفتار، عالم ہے تیر زلف پریشاں میں گرفتار، میری اُس کی ہے ملاقات، کچھ اور، یوں ہے وہ نقاب اُس بت بے پیر کے منہ پر، ارجن سابشر آ نہ سکا تیر کے منہ پر، کیاہی شیریں زبان ہے کافر، خنداں رہ کرم سے چلے آؤ میرے گھر، ہم تو سوئے نہ فراغت سے کبھی بستر پر، پھولوں کی چھڑی کھائےہے گل بندقبا پر، ہم صبح کو کوچے سے ترے رہ گئے چل کر، اتنا تو نہ جینے سے فلک مجھ کو خفا کر، کافر یہ جوبکھرے ہیں ترے باک ہوا پر، سنبل تر کے تئیں پردہ رخسار نہ کر، جان من جلوہ گری برسر بازار نہ کر، جتنا کہ سراہا وہ ہوا اور بھی مغرور، جامہ ملتا ہے بند سے ترے چسپاں ہوکر، باندھی ہے ہم نے از بس جوں نے کمر فغاں پر، (دریف ز) کس کے مجروح یہ مدفوں ہیں نہ خاک ہنوز، بیگانگی ہے اس کی ملاقات میں ہنوز، خوں ٹپکتا ہے مرے دیدہ گریاں سے ہنوز، طوطی سے کہاں ہے تری گفتار کا انداز، (دریف س) دور سے دیکھتے ہیں یار کا دیدار اور بس، ٹک آکے بیٹھے جو وہ مہ جبیں ہمارے پاس، اس دل ویراں کا عالم نظرآیا کہ بس، کردیا ہے مجھ کو دوباتوں نے اس کی کی بے حواس، (دریف ش) کس منہ سے ہم جہاں میں کریں آرزوے عیش، جس آنکھ کو ہو رخنہ دیوار کی تلاش، یا عہد وفا ہوا فراموش، (دریف ص)ہے دام میں زلفوں کے گرفتار کوئی شخص، دل فرش ہوا جائے ہے آغازشب رقص، (دریف ض)ہوتا ہے حسن رو سے ترے آرسی کوفیض، نہ مسیحا کو دکھایا جگر ریس غرض، کیوں نہ اب مژگاں سے دیکھے تیغ اور خنضر کی عرض، گنتا تھا بس کہ اپنے تئیں خاکسار محض، (دریف ط) عیش کہاں کدھر نشاط کہتے ہیں کس کو انبساط، حسن نے بھیجا ہے لکھ لعل شکرخا کو خط، کیا لکھے اُس کے تئیں اب کوئی ہمسار کا خط، (دریف ظ)گل پھول کی خوشی رہی سروسمن کا خط، نگل گیا مرے منہ سے کہیں خدا کا حافظ، یوں وہ بت کافر ہے دل زار سے محظوظ، (دریف ع) پردہ فانوس میں یوں تو نہاں جلتی ہے شمع، ساتھ پروانے کے راتوں کو جلا کرتی ہے شمع، لے گیا پروانہ دل میں حسرت دیدار شمع، اک آن میں حق خدمت ہوا مرا ضایع، ہے تو تو وہ نقش قلم قدرت صانع، (دریف غ) ہے مرے سینے میں روشن داغ فرقت کا چراغ، کون کرے سیر باغ کس کو ہے اتنا دماغ، (دریف ف) ابر کیوں کر ہو سکے اس چشم گریاں کا حریف، اُس نے جس دن سے کیا آنکھ لڑانا موقوف، (دریف ق) عشق کیا ہے ؟ تباہی عاشق، (دریف ک) نادار ہوئے ہیں ہم یہاں تک، یہ زلف سیہ روکش زنجیر ہے اب تک، یہ زلف سیہ روکش زنجیر ہے اب تک، (دریف گ) چہرے پہ نازکی سے ہے جوش شکست رنگ، (دریف ل) آئینہ ہوا اُس رخ زیبا کے مقابل، ہے گرفتاری دل باعث بیماری دل، کیا شوق میں ہیں نعرہ زناں قمری وبلبل، دن رات ہیں میرے دل کے دنبال، عالم کو کیا ہے تو نے پامال، دل میں جب عشق کی اٹھی ہے شول، تھا آپ ہی دیوان مرا نامہ اعمال، چمن دہر میں غم ناک ہیں ہم اوربلبل، مزہ ہے ہووے گر چپکے ہی چپکے مدعا حاصل، (دریف م )دیکھ آئنے میں زلف کو جھجکا نہ کرو تم، صرف مشتاق ہیں اک تیری ملاقات کے ہم، کیوں تیوری چڑھی رہتی ہے اب کچھ نہیں معلوم، کس راہ گیا لیلٰٰی کا محمل، نہیں معلوم، کب خون میں بھرا دامن قائل نہیں معلوم، خط پہ ہے سبزہ زار کا عالم، شمع رو ایسے کے پرانے ہیں ہم، نظروں میں تیری پیارے گو بے وقارتھے ہم، کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم، صرف گریے کا ہوا ہے اثر نالہ تمام، کیا دل میں ت رے کس گل کی خوبی نے اثر شبنم، سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم، میری آنکھوں میں تو ہو رشک گل خنداں تم، ہردم کو سمجھتے ہیں دم باز پسیں ہم، یادگار گزشتگاں ہیں ہم، وابستہ ، بہار طرب غم بہت ہے یاں، دنیا ہے جائے رنج ومحن، غم بہت ہے یاں، مرتے ہیں جان ہم تو ترے اشتیاق میں، جی چاہتا ہے وعدہ دیدار ہو کہیں، دروازہ نہ تھا اس کا تو جائے سگ و درباں، نے زخم خون چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں، دکھلاؤں اگر اس بت خود کام کی آنکھیں، اے شب ہجر کہیں تیری سحرہے کہ نہیں، لیتا ہوں میں جب اُس کی بلائیں وہ نازنیں، تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں، ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ اُدھر سے دیکھ لیتے ہیں، یا تو آوے وہ رشک ماہ کہیں، کبھی وفائیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں، جوں اشک راہ خشک سے کم ہے خبر ہمیں، رام عدم دکھائے ہے اس کی کمر ہیں، جاں باز سپاہی یہیں بے جان ہوئے ہیں، جاں سرکیوں کہ نہ ہم باغ کی دیوار سے ماریں، کم خواب کی یہ جو نظر آتی ہیں ازاریں، رکھتا ہے جو تو
زبان شیریں، دیکھ آیا ہے یہ کس جامہ چسپاں کے تئیں، ، دلی ہوئی ہے ویراں، سونے کھنڈر پڑے ہیںِ، کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اُٹھ آتا ہوں، یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں، پھول لاے کے ہیں جتنے چشم وخوں آلودہ ہیں، کس کے مقتل سے ہوا آج گزار دامن، خون ناحق ہے ترا نقش ونگار دامن، اشک خونیں ہیں مرے نقش ونگار دامن، عشق میں امتحاں ہزاروں میں، میں کیا کہوں کہ راتیں کیا سخت کٹتیاں ہیں، یا گزرتی تھی بہم عالم یک جائی میں، تپ غم سے جو چھاتیاں جلیاںِ جس گھڑی قاتل کے تھا حلقوم بسمل ہاتھ میں، کبھ اُس تازہ گل بن ہم جو رخت اپنا بدلتے ہیں، جن روزں کہ تھا اپناگزر اس کی گلی میں، کشتوں کی اس کے لاشیں جو اب تک گڑیں نہیں، امید وفا پر میں جفائیں بھی اُٹھائیں، ہے غلط تجھ سے جو امید یہی رکھتے ہیں، مژگاں تری جب تک کہ صف آرا نہ ہوئی تھیں، پہلو میں کہاں تک دل بے تاب کو دابیں، خنجر کی میاں پونچھ تو لوہو بھری نابیں، کر دل کی ذرا سیر کہ ہے سیر اسی میں، جی تلک داؤ محبت میں لگا بیٹھا ہوں، مجھ کو اُس بت سے ملا دے تو سرراہ کہیں، یارو ہماری گر اُسے چاہ اس قدر نہیں، یاربن زیست کا کچھ لطف جوانی میں نہیں، سّر جہاں سے ہم کو خبر ہے بھی اور نہیں، ساقی تومے پلا مجھے بھر بھر گلابیاں، چلتے چلتے ہو تری راہ میں آجاتے ہیں، جب بتاں زلف کی زنجیر دکھا جاتے ہیں، بیٹھے بیٹھے جو کبھی رونے پہ آجاتے ہیں، کبھی پردے سے جو وے آنکھ لڑاجاتے ہیںِ، سرزنش یاں خاک کولے یار کو ہے نہیں، نقش شیریں میں ترے حسن کا پرداز کہاں، اول تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیان میں ، عشق بازی ہے کچھ یہ کھیل نہیں اقطاع زمیں سارے گر دیکھیے موزوں ہیں، چوسر ہیں ہم اُس شوخ سے جی ہار گئے ہیں، جن ہاتھوں سے لیتا تھا کسو کی میں بلائیں، ہمارے داغ جگر شب نمود کرتے ہیں، باتوںمیں آپ ہنس ہنس نت زہر گھولتے ہیں، جیتا رہوں کہ ہجر میں مرجاؤں ، کیا کروں، (دریف و) جفا شعار جو ہو سو وفا شعار نہ ہو، کیا کم ہوا ہے زخموں سے میرا بدں اُتو، یا الہی مرے نالے کا اثر پیدا ہو، وہ نہیں میں جسے مرنے کا خطر پیدا ہو، تاچند رکھو دل میں گلستاں کی ہوس کو، مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو، پھر عشق کاان روزوں آزاد ہوا مجھ کو، بات کو میری الگ ہو کے نہ سرماؤ سنو، سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہو دیجو، گو کہ زنجیروں میں جکڑیں روک اس کی کس سے ہو، خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو، گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو، پیکاں ترا جگر کے اگر متعصل نہ ہو، پہلو سے مرے یار کا بیکاں نہ نکالو، رہے مے خانے کے در پر پڑا دن رات کاہے کو، گرچہ تم تازہ گل گلشن رعنائی ہو، بالوں کو سنوارو ہو، پٹھوں کو بناتے ہو، اک بات میں کہوں اگر آزردہ تو نہ ہو، جس گل کے بیچ مہر و محبت کی بونہ ہو، جس گل کے بیچ مہر و محبت کیہ بو نہ ہو، اگر تم آؤ ہمیں سرفراز کرنے کو، رہ گئے دیکھتے ہی ہم در کو، ازبس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو، یار آئے جو تیرے موے پریشاں مجھ کو، خوار رکھتا ہے اب تلک ہم کو، خاک میں مل گئے ہم یار کا چلنا دیکھو، گریہ دل کونہ سوے چشم بہاؤ، آج اُس نے کیا ہے اپنا بناؤ، میرے ملنے سے تمہیں خط نہ اگر ملتا ہو، نہ تنہا اضطراب دل نے شب رسوا کیا مجھ کو، ساتھ وسعت کےہے ہر چند جہاں رہنے کو، کب تک مری آنکھوں سے رواں خو ن جگر ہو، (دریف ہ) مقدور ہو تو لاگ نہ دیکھے کسوکےساتھ، روز کی خارا تراشی سخت مجبوری ہے یہ، اُس کو پیوند ہوا ہے جگر چاک کے ساتھ، مرغان باغ کی تو خوش آوازیاں تو دیکھ، کچھ زلف ہی الجھتی نہیں ہے صبا کے ساتھ، پھبتا ہے یوں وہ تکمہ گوہرگلے کے ساتھ، شبنم ہوئی پانی ترے دندان کی طرف دیکھ، کیا سبزہ ہے سیراب بیاباں کی طرف دیکھ، اُس اشک کے قطرے کی مرے جلوہ گری دیکھ، راتوں ستاروں کی ذرا جلوہ گری دیکھ، اُس نے جوکو کچھ کہا شب ہم کو گھر میں بیٹھ بیٹھ، پیچ پگڑی کاکھل رہا ہے کچھ، دل ہے پہلو میں کہ اک دشمن جاں کاہ ہے یہ، دل کو ہے رفتگی اس ابروے خم دار کے ساتھ، ہے مزہ سیر چمن کا تو فقط یار کے ساتھ، تو مری تربت پہ آیا واہ واہ، صحبت سے ترے خیال کے ساتھ، عشق کیا اک ذلت وخواری ہے یہ، (دریف ے، ی ) اس پردگی سے کیونکہ وہ آنکھیں لڑ اسکے، مسی کو مل کے غیر کے گھر آپ کل گئے، نالے سے میرے کوہ بیاباں دہل گئے، لیلٰی کا محمل اس کے محافے سے دور ہے، لے گئے دل کو میرے چھین کے بالے والے، کیا غم ہے گر سحر وہ گئی چشم تر لیے، باگسیوے آشفتہ جو تو باغ میں جاوے، بس کے تھی حسن میں یوسف کے سوائی مہنگی، سرخ ہیں مے سے وہ چشم نیم خواب نرگسی، جورفراق اور ستم آسماں بھی ہے ، عجب پاکیزہ صورت اُس بت کافر اد ا کی ہے، سر پر خار سے دامن کو جھٹکتے آئے، کب اس طرف وہ بت کج کلاہ آتا ہے، نہیں بندگی میں تو کچھ راہ اس کی، میر کیا چیز ہے سودا کیا ہے، گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے، منہ خنجر قاتل پہ رکھوں بے ادبی ہے، گو کہ مخمل ہمدمی چرخ جفا طراز ہے، موسم گل باغباں، باغ کا در کھول دے، آب ہو حسرت دل تو تو بہی جاتی ہے، پاؤں کا رنگ لب سے ترے آشکار ہے، شب نالہ ہاے گرم جو سوے فلک چلے، زلف مشکیں ہو جہاں سنبل کی بو کیا چیز ہے، نے تیر نہ تلوار نہ خنجر نہ چھرا ہے، سنتے تو ہیں اکسیر ہے عنقا ہے ہما ہے، ز بس نظروں میں تھے ڈھنگ اس بلاے ناگہانی کے، ڈرتا ہوں صبا تجھھ سے جووہ زلف اکڑ جائے، اینٹھے کبھو خط اور کبھو وہ زلف اکڑ جائے، اُس کی رفتار کو مذکورہ جب آجاتا ہے، کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے، کس منہ سے کریں ہم ہوس محمل لیلٰی، لاف گرمی ترے عارض سے جو گلشن مارے، غیر سے آنکھ نہ یوں وہ بت پرفن مارے، اس ظلم کی آفت کسی ہم فن پہ نہ ہووے، نہ تو یہ آہ ہی ہم دوش اثر ہوتی ہے، میں وہ نہیں ہوں کہ اُس بت سے دل مرا پھر جائے، غم اس کا کچھ نہیں گو مجھ سے اک جہاں پھر جائے، جب
جاتے جاتے اُس نے پردہ اٹھا دیا ہے، نہ قاصد ہے نہ نامہ ہے، نہ پیغام زبانی ہے، نہ وہ راتیں، نہ وہ باتیں، نہ وہ قصہ کہانی ہے، نصیب اپنے میں غم اوروں کو عیش وشادمانی ہے، مہندی نے ترے ہاتھوں پہ یہ رنگ دیا ہے، کاجل تری آنکھوں میں میاں کس نے دیا ہے، غصے کو جانے دیجے، نہ تیوری چڑھائیے، دی نتو کیا چیز ہے ایمان بھی صدقے کیجیے، یہ لوگ میاں جی سے گزر جاتے ہیں کیسے، یہ دل کہ آتش غم پر سپند رہتا ہے، دیکھے جو تری فندق سفاک کے ڈورے، ٹوٹے جو رفوے جگرچاک کے ڈورے، گئے ہیں، یار اپنے اپنے گھر ، دالان خالی ہے، کسی پر دل کا آجانا غضب ہے، زخم کاری جگرپر آتا ہے، جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے، شام جلتا ہے دل خستہ سحر جلتا ہے، نہ فقط مال کا عاشق کے ضرر ہوتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے جو کسی گل کا جگر ہوتا ہے، آگے ہستی کے تری ہستی عالم کیا ہے، تصور تیری صورت کا مجھے ہردم ستاتا ہے، قاصد نوید وصل زبانی ہے یار کی، رکھ کے ہم زانو پہ یہ جس وقت کہ سر بیٹھ گئے، آنکھ لڑتے ہی یہ حالت ہم پہ کچھ طاری ہوئی، اُس نے کتنوں کو مار اُتارا ہے، بازوے کوہ کن کی تلاشی زمین ہے، آئی بسند کوے بتاں کی زمیں مجھے، اُٹھ گیا زیست کے کرنے کا مزہ دنیا سے، کس چاؤ سے دل کا مرے ارمان نکل جائے، منہ سے ترے مربھی جو مری جان نکل جائے، کل اُٹھ گی وہ ہاتھ چھڑا میرے ہاتھ سے، نت اُس بت کافرکی ملاقات نئی ہے، کوچے میں اُس کے جو کوئی جی کھو کے جا سکے، جس سے امیدوفا تھی بے وفائی اس نے کی، کچھ حیا آنکھوں مین ہے اس کی تو کچھ پیار بھی ہے، جب کبھی صید افگنی کو وہ صنم چڑھ جاے ہے، جب شب غم اشک سرخ اپنے کا یم چڑھ جاے ہے، جب ترا ماتھا غضب سے اے صم چڑھ جاے ہے، دیکھ تو ہم میں غم عشق نے کیا رکھا ہے، پیری میں بھی ہم الفت طفلاں سے نہ چھوٹے، نہ دوستی، نہ محبت، نہ دلبری دیکھی، نالے مرے ہر چند اثرکچھ نہیں رکھتے، جس گھڑی یاد وہ زلف و کمر آجاتی ہے، خط کھینچے تو نےمجھے پر تحریرکیا نکالی، رونق بہار حسن تمہارا ہمیں سے ہے، ملنا تر اغیار سے منظور کسے ہے، صورت عرق میں ہے یہ رخ پر حجاب کی، یہ نہ سمجھو کہ سحر چاک گریباں ہووے، لباس سرخ میں کافر بھبوکا بن کے آیا ہے، یار کا سیب زنخداں تو مرے ہاتھ میں ہے، سومفرہیں اس کے گر کوئی بلا پیچھے پڑے، ہاتھ میں لے کے وہ جب تیغ وسپر نکلے ہے، صبح کی شام ہوئی شام کی پھر رات ہوئی، گر چشم تر سے ہم نے ٹک آستیں اٹھالی، شرم آتی ہے اب اٹھ کر یاں سے کیا گھر جایئے، جس میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جائیے، جی میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جایئے، نہ اس رونے سے آفت دیدہ گریاں پہ آئی ہے، بہار موسم گل اب کے پھر تغیاں پہ آئی ہے، یاد اس کو دیدہ بازی کے ہین فن نئے نئے، خط نیا خال نیا زلف کی تحریرنئی، کاجل آنکھوں میں نہ اتنا بھی لگایا کیجیے، جوں جوں الفت زیادہ ہوتی ہے، جز نجد کے دیکھی نہ کوئی منزل لیلٰی، نہ ڈر سے شیخ کے جام مل آستیں میں ہے، نہ یہ وہ دل ہے کہ اب جس سے نالہ سرکھینچے، دور رہنا ہی بھلا ہے ہمیں محبوبوں سے، گو تم نے مجھے زیست سے بیزار رکھا ہے، مروت بھی اگر آنکھوں میں اس کی اک ذرا ہوتی، غرض کہ جو حرکت ہے سو دل لبھانے کی، تم ہم کو اپنا منہ نہ دکھاؤ تو خوب ہے، اس کی چاہت کے گرفتار ہیں ہم بھی سچ ہے، کوئی کیا جانے کہ اس عشق میں کیا بنتی ہے، بجلی کی کوند دیکھ اسے منہ چھپا گئی، رفتار اس کی دل پہ جو ٹھوکر کر لگا گئی، کب ہاتھ مرا اس کے گریباں کے تلے جائے، جوں جوں دل زخم کھائے جاتا ہے، گاہ مد سرمے کی کاجل کی گہے تحریر ہے، آیا تھا ترے سجدے کو میں خواب عدم سے ، ملوہو غیروں سے اور ہم سے بے وفائی ہے ، یوں ہے نازاں جی سے مجھ کو وہ ستم گر مار کے، مار ڈالا ہے ادا نے تیری، دیکھ کر صورت تمہاری ہم بہت پر غم ہوئے، راہ میں کشتے پڑے ہیں کئی ارمان بھرے، مثل آئینہ فقط وہ ہے اور اک حیرت ہے، چمن ہے سبزہ ہے ساقی ہے اور ہوا بھی ہے، ہر ایک قدم پر جو وہاں غش کی جگہ ہے، دل خارا میں مرا نالہ اثر کرتا ہے، جھپٹے میں آگیا ہے دل اپنا اس پری کے، ہر قدم انداز ہے ہر گام پر ایک ناز ہے، منہ پھرا لینے میں تو بارے بھلا اک ناز ہے، یوں مقتل غریبوں کا ، اے شوخ رو اکب ہے، اے فلک آپ کو اتنا جو پھرایا تو نے، شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشک باری دے گئے، خطرہ ہے مجھے اس دل کم بخت کی خو سے، چھیڑے سے مرے ہر دم زلف اس کی اکڑتی ہے، طاق پر خوشہ انگور دھرا رہتا ہے، ہر ایک بال وہ جس کے تئیں کمر نہ لگے، جو تھے سننے والے اس آہ حزیں کے، کوئی ایسا نہیں ملتا کہ ہم کو ہم سے لے جاوے، رباعیات، مسدس، مثنوی در افراط سرما، مثنوی در افراط گرما، مثنوی درافراط آتش، مثنوی پسر تنبولی، مثنوی در ہجو مکانے۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)

کلیات مصحفی جلد دوم

(غزلیات) دریف الف: خورشید کو سا یے میں زلفوں کے چھپا رکھا، پیغام وسلام اس نے ذرا بھی نہیں لکھا، ترا خدنگ نگہ جس کے دل کے پار ہوا، لطف کیا جب بہ سر راہ عیاں ہو جانا، مرض عشق سے گر اب کے سنبھل جاؤں گا، بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا، صانع نے جو خم ابروئے دلدار میں رکھا، جس دم کہ وہ کمر میں رکھ کرکٹار نکلا، ہوا شعلہ جو میری آہ آتش ناک سے پیدا، رونے نے میرے ہوش تو طوفاں کا کھودیا، شعلہ آتش پہ جب میں اپنا داماں رکھ دیا، دل کب متحمل ہو جدائی کے الم کا، نالہ مرغ سحر دل میںاثر کر ہی گیا، یک چند اس طرف جو میں جانے سے رہ گیا، مجھ تک یہ نہ آوے تمھیں منظور یہی تھا، جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا، دیکھ کر اس جلوے کوتیرے گر ہی پڑا بے خود ہوموسٰی، آیا جویاں تو ووں ہی بہانے سے اٹھ گیا، کچھ آرزو نہ تھی بت و بتخانہ دیکھنا، سخت مشکل ہے اب اس کوچے میں جانا اپنا، تیرکرشمہ دل سے مرے پار ہوگیا، کیا کہیے یار تھا سو وہ اغیارہوگیا، اس کو دکھلائیو نقشہ مری حیرانی کا ،رخ پہ عالم ہے و ہ زلفوں کی پریشانی کا ،منہ دیکھوں میں روز عید تیرا، میں اس صنم ماہ لقا کو نہیں دیکھا، ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا، جانے سے جس گلی کے مجھے عارہ رہا، ملنے سے میرے اس کوز بس عار ہی رہا، باغباں دیکھ کے کل ضبط نفس بلبل کا، خوبی کو تری کس نے میرجاں نہ سراہا، ہے کسون پر جو ذرا وہ بت بے باک چڑھا، اس نے جس وقت کہ خال اپنے زنخداں پہ رکھا ، جس سنگ پہ خون کوہ کن تھا، رات پردے سے منہ جو کسو کانکلا، شب ترے کو چے مین کوئی کہتے ہیں مرکررہ گیا، آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ، کہوں کیا ہجر میں صبر و شکیبائی پہ کیا گزرا، جہاں اندیشہ اغیار کا دن رات ہے کھٹکا، پردہ اٹھا کے اس نے جو سینہ دکھا دیا، کیا تعجب ہے اگر پھر کے ہو جینا میرا، کاٹ کر سرمیں تری راہ میں دھرجاؤں گا، میں زلف منہ میں لی تو کہا "مار کھائے گال؟" عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا، محنت کے لیے ، یا ہوئے آرام کو پیدا، حسن وخوبی میں تجھے یوسف ثانی سمجھا، میں تو دیکھا نہیں اس جلوہ گری کا سونا، شب کو نظروں میں خیال رخ دلداررہا، کون سے روز ترا وعدہ دیدار نہ تھا، شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا، کیوں کھینچ کےتیغا مجھے اک بار لگایا، تو الیسا غیر کے حصے میں آیا، غم کی شدت میں کروں فکر میں شیدائی کیا، مجھ سے مطلب ہے ترا اے شب تنہائی کیا، غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا، حسن اس کا اب سماں کچھ اور دکھلائےگا، ہاتھ میرے نہ کبھی دامن دلدارلگا، ایک ہچکی مین ٹھکانے دل بیمار لگا، پاس میرے وہ ترا پیار سے آنا نہ رہا، کوچے سے ترے دل مجھے خانے نہیں دیتا، قصدکرتا ہوں جو اس در سے کہیں جانے کا، دم آخر ہے یہ تجھ کو بھی روا مل جانا، جاؤ اس کو میں تو اک اک سے جدا مل جانا، نہ مرے دل کو گرفتار کرو تم اپنا، رہتاہوں تجھے دیکھ کے میں ہاتھ ہی ملتا، توجاتے سر رہ جس کو کہ نظرآیا، دنیا میں جب تلک کہ میں اندوہ گیں رہا، رونے میں کام بس کہ شب اے ہم نشیں رہا، ہر روز رہا مجھے سے شب تارکا وعدا، ہے یہ دل دیوانہ تو پروانہ پری کا، ہر دم ہے تیرے حسن کا حیران دوسرا، تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا، کرتا تھا کہیں وصف میں اس غنچہ دہن کا، کسی جنگل کے گل بوٹے سے جی میرا بہل جاتا، چاہنا یوں نہ دل نشیں ہوگا، ہائے اس کا ہمک کر اٹھ جانا، اس دم سرد سے خطرہ نہ اگر کیجیے گا، ابن مریم آسماں کا میں زمیں کا ہورہا، جفا و جور نت کے اب تو یہ دل سہ نہیں سکتا، جو تو اسے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووے گا، ہوا ہے دشمن جاں بس کہ باغباں میرا، کسو بھی طرح گزارا نہیں جہاں میرا، زلفین دکھا کے اس نے عالم کو مارڈالا، بلبل خوش صفیر ہوں گلشن روز گار کا، ٹھکانااس جگہ ہوتا نہیں اس غم کے مارے کا، دامن اس شوخ نے کھینچا جو جھٹک کراپنا، ہے آنسوؤں سے غوغاان پر کبوتروں کا، اشکوں سے میرے لخت جگر دور رہ گیا، غیر کے گھر میں یار رہنےلگا پہلو سے اٹھ کے شب جو وہ آرام جاں گی، اک حرف کن میں جس نے کون ومیاں بنایا، ہے یہاں کس کو دماغانجمن آرائی کا، گرچہ مذکور ہے ہر جا تری رعنائی کا، داغ دیکھے تھا کھڑا لالہ صحرائی کا، قاصد اُس کو سے پھیرایا نہ پھرا ہووے گا، د ل گرایا جگر اُس دیدہ گریاں سے چوا، (دریف ب) دنیا سے اپنے یار کو لدوائیے شتاب، شاید کسو نے پھر اُسے برہم کیا ہے اب، ہم کودینے لگے تم چھیڑکے گالی کیا خوب، بام پر اس کے جو ہوتا گزر نالہ شب، کیوں نکلتا سوتے ہوئے منہ سے اپنے یا نصیب، باتیں بنا کے مجھ کو شیدا نہ کیجیے صاحب، کس دن گلی سے اُس کی پھرا نامہ بر شتاب، غیروں سے میاں تیری ملاقات نہیں خوب، دن کو تو نہیں کوئی ملاقات کی تقریب، جی چلے تیرا تولے چکھ تو بھی اے مست شراب، یہ حالت ہے کہ دل سینے می گھبراتا ہے بے موجب، دل ویوانہ اس کی گالیاں کھاتا ہے بے موجب، (دریف پ) کھلکھلا کر نہ ہنسا کیجیے آپ، (دریف ت)البتہ فن عشق میں ہوجس کو مہارت، ہر چند اس نے تیری طرف سے بنائی بات، خدا نے حور وپری کو کب ایسی دی صورت،منعم توہورہا ہے گرفتار سنگ و خشت، ہرگز کھلا نہ شیخ پہ اسرار سنگ وخشت، خواب میں آئے ہے جب اُس کے میاں آدھی رات، اے زبان تیشہ کہہ کچھ کوہ کن کی سرگزشت، ، میاں عالم ہستی اگر ہے سجدہ درست، گلی میں اس کی نہ پوچھو کدھرہے سجدہ درست، تھی میرے ہاتھ ہی میں تمہاری کمر تو رات، ہائے اُس کے وہ ننھے ننھے بات، رخسار پر ہے زلف پریشان کی اوقات، (دریف ٹ) لے کے دل زلف میں رکھا ہے لپیٹ، آئی ہے یہ کچھ آہ کے صدمے سے دل پہ چوٹ، (دریف ث) جیسے کسی چیز پر ہوتی ہے طفلاں میں بحث، یار ملتا ہے کوئی یہ آہ زاری ہے عبث، (دریف ج) تا بہ فلک ہوگئی اشک کے طوفاں کی موج، نہ تو اس شہر میں دوا کارواج، یوں ہوا معلوم ہم کو دل کی بے تابی سے

آج، عیسی سے کیونکر ہو دل بیمار کا علاج، نکلا ہے سرخ پوش ہو وہ نوجوان آج، خسروں کے سر سے کب جاؤے ہو اے تخت و تاج، (دریف چ) کچھ ان دنوں ہے اور ہوا گلستاں کے بیچ، ہم کو ناکامی مطالع نے رکھا کام کے بیچ، لے گیا شوق قفس کو دل ناکام کے بیچ، جی جگر سب ہو گیا قاتل مرے لوہو کا خرچ، (دریف ح)ملتے ملتے ووں ہی ہوجاتا ہے بیگانے کی طرح، ہوتی ہے کیا یہی مرے صاحب حیا کی طرح، تا چند کرتے خدمت گل باغباں کی طرح، رات کاٹی ہم نے تجھ بن جس طرح، سینے سے جلوہ گر ہے ترے ابتدائے صبح، گالیاں دیتے ہو تم مجھ کو میری جان صریح، (دریف خ)اپنا تو مرغ دل ہے گرفتارحسن شوخ، اس مست کو ہوا ہے جو شوق شراب و شیخ، لباس پہنے ہے اکثر وہ شوخ پر فن سرخ، کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اسے شیِخ، (دریف د) کس کے یار آئے تجھے دست نگاریں فرہاد،آئنے کو ہے ترے حسن کی خدمت شاید، ناوک سے نگہ کی ترے ہرگز نہ بچا صید، کس طرح جھانکے کوئی واں کرکے اب گردن بلند،(دریف ذ) ہم نے خط لکھنے کو جب اس کے اٹھایا کاغذ، (دریف ر) آیا جووہ کل تیر و کماں ہاتھ میں لے کر، آتا ہے جی میں یوں کہ کسی گل کو تاڑ کر، ہم کو ترساتے ہو تم کیوں یہ ادا دکھلا کر، ہم نے لٹا دیا ہے گھر بار تیری خاطر، نکلے ہے یہی خاطر دل کے مرے ساز سے باہر، وہ دن گئے کہ تھا تو شیریں مقالیوں پر، دیکھیے کیا جی پہ گزرے نوبہار آئی ہے پھر، سر پہ کل طرے کاگڑوا رکھ کے لائی ہے بہار، رہتا ہے دل اُس زلف پریشاں میں گرفتار، عالم ہے تیر زلف پریشاں میں گرفتار، میری اُس کی ہے ملاقات، کچھ اور، یوں ہے وہ نقاب اُس بت بے پیر کے منہ پر، ارجن سابشر آ نہ سکا تیر کے منہ پر، کیاہی شیریں زبان ہے کافر، خنداں رہ کرم سے چلے آؤ میرے گھر، ہم تو سوئے نہ فراغت سے کبھی بستر پر، پھولوں کی چھڑی کھائےہے گل بندقبا پر، ہم صبح کو کوچے سے ترے رہ گئے چل کر، اتنا تو نہ جینے سے فلک مجھ کو خفا کر، کافر یہ جوبکھرے ہیں ترے باک ہوا پر، سنبل تر کے تئیں پردہ رخسار نہ کر، جان من جلوہ گری برسر بازار نہ کر، جتنا کہ سراہا وہ ہوا اور بھی مغرور، جامہ ملتا ہے بند سے ترے چسپاں ہوکر، باندھی ہے ہم نے از بس جوں نے کمر فغاں پر، (دریف ز) کس کے مجروح یہ مدفوں ہیں نہ خاک ہنوز، بیگانگی ہے اس کی ملاقات میں ہنوز، خوں ٹپکتا ہے مرے دیدہ گریاں سے ہنوز، طوطی سے کہاں ہے تری گفتار کا انداز، (دریف س) دور سے دیکھتے ہیں یار کا دیدار اور بس، ٹک آکے بیٹھے جو وہ مہ جبیں ہمارے پاس، اس دل ویراں کا عالم نظرآیا کہ بس، کردیا ہے مجھ کو دوباتوں نے اس کی کی بے حواس، (دریف ش) کس منہ سے ہم جہاں میں کریں آرزوے عیش، جس آنکھ کو ہو رخنہ دیوار کی تلاش، یا عہد وفا ہوا فراموش، (دریف ص)ہے دام میں زلفوں کے گرفتار کوئی شخص، دل فرش ہوا جائے ہے آغازشب رقص، (دریف ض)ہوتا ہے حسن رو سے ترے آرسی کوفیض، نہ مسیحا کو دکھایا جگر ریس غرض، کیوں نہ اب مژگاں سے دیکھے تیغ اور خنضر کی عرض، گنتا تھا بس کہ اپنے تئیں خاکسار محض، (دریف ط) عیش کہاں کدھر نشاط کہتے ہیں کس کو انبساط، حسن نے بھیجا ہے لکھ لعل شکرخا کو خط، کیا لکھے اُس کے تئیں اب کوئی ہمسار کا خط، (دریف ظ)گل پھول کی خوشی رہی سروسمن کا خط، نگل گیا مرے منہ سے کہیں خدا کا حافظ، یوں وہ بت کافر ہے دل زار سے محظوظ، (دریف ع) پردہ فانوس میں یوں تو نہاں جلتی ہے شمع، ساتھ پروانے کے راتوں کو جلا کرتی ہے شمع، لے گیا پروانہ دل میں حسرت دیدار شمع، اک آن میں حق خدمت ہوا مرا ضایع، ہے تو تو وہ نقش قلم قدرت صانع، (دریف غ) ہے مرے سینے میں روشن داغ فرقت کا چراغ، کون کرے سیر باغ کس کو ہے اتنا دماغ، (دریف ف) ابر کیوں کر ہو سکے اس چشم گریاں کا حریف، اُس نے جس دن سے کیا آنکھ لڑانا موقوف، (دریف ق) عشق کیا ہے ؟ تباہی عاشق، (دریف ک) نادار ہوئے ہیں ہم یہاں تک، یہ زلف سیہ روکش زنجیر ہے اب تک، یہ زلف سیہ روکش زنجیر ہے اب تک، (دریف گ) چہرے پہ نازکی سے ہے جوش شکست رنگ، (دریف ل) آئینہ ہوا اُس رخ زیبا کے مقابل، ہے گرفتاری دل باعث بیماری دل، کیا شوق میں ہیں نعرہ زناں قمری وبلبل، دن رات ہیں میرے دل کے دنبال، عالم کو کیا ہے تو نے پامال، دل میں جب عشق کی اٹھی ہے شول، تھا آپ ہی دیوان مرا نامہ اعمال، چمن دہر میں غم ناک ہیں ہم اوربلبل، مزہ ہے ہووے گر چپکے ہی چپکے مدعا حاصل، (دریف م )دیکھ آئنے میں زلف کو جھجکا نہ کرو تم، صرف مشتاق ہیں اک تیری ملاقات کے ہم، کیوں تیوری چڑھی رہتی ہے اب کچھ نہیں معلوم، کس راہ گیا لیلٰٰی کا محمل، نہیں معلوم، کب خون میں بھرا دامن قائل نہیں معلوم، خط پہ ہے سبزہ زار کا عالم، شمع رو ایسے کے پرانے ہیں ہم، نظروں میں تیری پیارے گو بے وقارتھے ہم، کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم، صرف گریے کا ہوا ہے اثر نالہ تمام، کیا دل میں ت رے کس گل کی خوبی نے اثر شبنم، سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم، میری آنکھوں میں تو ہو رشک گل خنداں تم، ہردم کو سمجھتے ہیں دم باز پسیں ہم، یادگار گزشتگاں ہیں ہم، وابستہ ، بہار طرب غم بہت ہے یاں، دنیا ہے جائے رنج ومحن، غم بہت ہے یاں، مرتے ہیں جان ہم تو ترے اشتیاق میں، جی چاہتا ہے وعدہ دیدار ہو کہیں، دروازہ نہ تھا اس کا تو جائے سگ و درباں، نے زخم خون چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں، دکھلاؤں اگر اس بت خود کام کی آنکھیں، اے شب ہجر کہیں تیری سحرہے کہ نہیں، لیتا ہوں میں جب اُس کی بلائیں وہ نازنیں، تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں، ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ اُدھر سے دیکھ لیتے ہیں، یا تو آوے وہ رشک ماہ کہیں، کبھی وفائیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں، جوں اشک راہ خشک سے کم ہے خبر ہمیں، رام عدم دکھائے ہے اس کی کمر ہیں، جاں باز سپاہی یہیں بے جان ہوئے ہیں، جاں سرکیوں کہ نہ ہم باغ کی دیوار سے ماریں، کم خواب کی یہ جو نظر آتی ہیں ازاریں، رکھتا ہے جو تو

زبان شیریں، دیکھ آیا ہے یہ کس جامہ چسپاں کے تئیں، ، دلی ہوئی ہے ویراں، سونے کھنڈر پڑے ہیںِ، کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اُٹھ آتا ہوں، یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں، پھول لاے کے ہیں جتنے چشم وخوں آلودہ ہیں، کس کے مقتل سے ہوا آج گزار دامن، خون ناحق ہے ترا نقش ونگار دامن، اشک خونیں ہیں مرے نقش ونگار دامن، عشق میں امتحاں ہزاروں میں، میں کیا کہوں کہ راتیں کیا سخت کٹتیاں ہیں، یا گزرتی تھی بہم عالم یک جائی میں، تپ غم سے جو چھاتیاں جلیاںِ جس گھڑی قاتل کے تھا حلقوم بسمل ہاتھ میں، کبھ اُس تازہ گل بن ہم جو رخت اپنا بدلتے ہیں، جن روزں کہ تھا اپناگزر اس کی گلی میں، کشتوں کی اس کے لاشیں جو اب تک گڑیں نہیں، امید وفا پر میں جفائیں بھی اُٹھائیں، ہے غلط تجھ سے جو امید یہی رکھتے ہیں، مژگاں تری جب تک کہ صف آرا نہ ہوئی تھیں، پہلو میں کہاں تک دل بے تاب کو دابیں، خنجر کی میاں پونچھ تو لوہو بھری نابیں، کر دل کی ذرا سیر کہ ہے سیر اسی میں، جی تلک داؤ محبت میں لگا بیٹھا ہوں، مجھ کو اُس بت سے ملا دے تو سرراہ کہیں، یارو ہماری گر اُسے چاہ اس قدر نہیں، یاربن زیست کا کچھ لطف جوانی میں نہیں، سّر جہاں سے ہم کو خبر ہے بھی اور نہیں، ساقی تومے پلا مجھے بھر بھر گلابیاں، چلتے چلتے ہو تری راہ میں آجاتے ہیں، جب بتاں زلف کی زنجیر دکھا جاتے ہیں، بیٹھے بیٹھے جو کبھی رونے پہ آجاتے ہیں، کبھی پردے سے جو وے آنکھ لڑاجاتے ہیںِ، سرزنش یاں خاک کولے یار کو ہے نہیں، نقش شیریں میں ترے حسن کا پرداز کہاں، اول تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیان میں ، عشق بازی ہے کچھ یہ کھیل نہیں اقطاع زمیں سارے گر دیکھیے موزوں ہیں، چوسر ہیں ہم اُس شوخ سے جی ہار گئے ہیں، جن ہاتھوں سے لیتا تھا کسو کی میں بلائیں، ہمارے داغ جگر شب نمود کرتے ہیں، باتوںمیں آپ ہنس ہنس نت زہر گھولتے ہیں، جیتا رہوں کہ ہجر میں مرجاؤں ، کیا کروں، (دریف و) جفا شعار جو ہو سو وفا شعار نہ ہو، کیا کم ہوا ہے زخموں سے میرا بدں اُتو، یا الہی مرے نالے کا اثر پیدا ہو، وہ نہیں میں جسے مرنے کا خطر پیدا ہو، تاچند رکھو دل میں گلستاں کی ہوس کو، مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو، پھر عشق کاان روزوں آزاد ہوا مجھ کو، بات کو میری الگ ہو کے نہ سرماؤ سنو، سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہو دیجو، گو کہ زنجیروں میں جکڑیں روک اس کی کس سے ہو، خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو، گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو، پیکاں ترا جگر کے اگر متعصل نہ ہو، پہلو سے مرے یار کا بیکاں نہ نکالو، رہے مے خانے کے در پر پڑا دن رات کاہے کو، گرچہ تم تازہ گل گلشن رعنائی ہو، بالوں کو سنوارو ہو، پٹھوں کو بناتے ہو، اک بات میں کہوں اگر آزردہ تو نہ ہو، جس گل کے بیچ مہر و محبت کی بونہ ہو، جس گل کے بیچ مہر و محبت کیہ بو نہ ہو، اگر تم آؤ ہمیں سرفراز کرنے کو، رہ گئے دیکھتے ہی ہم در کو، ازبس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو، یار آئے جو تیرے موے پریشاں مجھ کو، خوار رکھتا ہے اب تلک ہم کو، خاک میں مل گئے ہم یار کا چلنا دیکھو، گریہ دل کونہ سوے چشم بہاؤ، آج اُس نے کیا ہے اپنا بناؤ، میرے ملنے سے تمہیں خط نہ اگر ملتا ہو، نہ تنہا اضطراب دل نے شب رسوا کیا مجھ کو، ساتھ وسعت کےہے ہر چند جہاں رہنے کو، کب تک مری آنکھوں سے رواں خو ن جگر ہو، (دریف ہ) مقدور ہو تو لاگ نہ دیکھے کسوکےساتھ، روز کی خارا تراشی سخت مجبوری ہے یہ، اُس کو پیوند ہوا ہے جگر چاک کے ساتھ، مرغان باغ کی تو خوش آوازیاں تو دیکھ، کچھ زلف ہی الجھتی نہیں ہے صبا کے ساتھ، پھبتا ہے یوں وہ تکمہ گوہرگلے کے ساتھ، شبنم ہوئی پانی ترے دندان کی طرف دیکھ، کیا سبزہ ہے سیراب بیاباں کی طرف دیکھ، اُس اشک کے قطرے کی مرے جلوہ گری دیکھ، راتوں ستاروں کی ذرا جلوہ گری دیکھ، اُس نے جوکو کچھ کہا شب ہم کو گھر میں بیٹھ بیٹھ، پیچ پگڑی کاکھل رہا ہے کچھ، دل ہے پہلو میں کہ اک دشمن جاں کاہ ہے یہ، دل کو ہے رفتگی اس ابروے خم دار کے ساتھ، ہے مزہ سیر چمن کا تو فقط یار کے ساتھ، تو مری تربت پہ آیا واہ واہ، صحبت سے ترے خیال کے ساتھ، عشق کیا اک ذلت وخواری ہے یہ، (دریف ے، ی ) اس پردگی سے کیونکہ وہ آنکھیں لڑ اسکے، مسی کو مل کے غیر کے گھر آپ کل گئے، نالے سے میرے کوہ بیاباں دہل گئے، لیلٰی کا محمل اس کے محافے سے دور ہے، لے گئے دل کو میرے چھین کے بالے والے، کیا غم ہے گر سحر وہ گئی چشم تر لیے، باگسیوے آشفتہ جو تو باغ میں جاوے، بس کے تھی حسن میں یوسف کے سوائی مہنگی، سرخ ہیں مے سے وہ چشم نیم خواب نرگسی، جورفراق اور ستم آسماں بھی ہے ، عجب پاکیزہ صورت اُس بت کافر اد ا کی ہے، سر پر خار سے دامن کو جھٹکتے آئے، کب اس طرف وہ بت کج کلاہ آتا ہے، نہیں بندگی میں تو کچھ راہ اس کی، میر کیا چیز ہے سودا کیا ہے، گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے، منہ خنجر قاتل پہ رکھوں بے ادبی ہے، گو کہ مخمل ہمدمی چرخ جفا طراز ہے، موسم گل باغباں، باغ کا در کھول دے، آب ہو حسرت دل تو تو بہی جاتی ہے، پاؤں کا رنگ لب سے ترے آشکار ہے، شب نالہ ہاے گرم جو سوے فلک چلے، زلف مشکیں ہو جہاں سنبل کی بو کیا چیز ہے، نے تیر نہ تلوار نہ خنجر نہ چھرا ہے، سنتے تو ہیں اکسیر ہے عنقا ہے ہما ہے، ز بس نظروں میں تھے ڈھنگ اس بلاے ناگہانی کے، ڈرتا ہوں صبا تجھھ سے جووہ زلف اکڑ جائے، اینٹھے کبھو خط اور کبھو وہ زلف اکڑ جائے، اُس کی رفتار کو مذکورہ جب آجاتا ہے، کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے، کس منہ سے کریں ہم ہوس محمل لیلٰی، لاف گرمی ترے عارض سے جو گلشن مارے، غیر سے آنکھ نہ یوں وہ بت پرفن مارے، اس ظلم کی آفت کسی ہم فن پہ نہ ہووے، نہ تو یہ آہ ہی ہم دوش اثر ہوتی ہے، میں وہ نہیں ہوں کہ اُس بت سے دل مرا پھر جائے، غم اس کا کچھ نہیں گو مجھ سے اک جہاں پھر جائے، جب

جاتے جاتے اُس نے پردہ اٹھا دیا ہے، نہ قاصد ہے نہ نامہ ہے، نہ پیغام زبانی ہے، نہ وہ راتیں، نہ وہ باتیں، نہ وہ قصہ کہانی ہے، نصیب اپنے میں غم اوروں کو عیش وشادمانی ہے، مہندی نے ترے ہاتھوں پہ یہ رنگ دیا ہے، کاجل تری آنکھوں میں میاں کس نے دیا ہے، غصے کو جانے دیجے، نہ تیوری چڑھائیے، دی نتو کیا چیز ہے ایمان بھی صدقے کیجیے، یہ لوگ میاں جی سے گزر جاتے ہیں کیسے، یہ دل کہ آتش غم پر سپند رہتا ہے، دیکھے جو تری فندق سفاک کے ڈورے، ٹوٹے جو رفوے جگرچاک کے ڈورے، گئے ہیں، یار اپنے اپنے گھر ، دالان خالی ہے، کسی پر دل کا آجانا غضب ہے، زخم کاری جگرپر آتا ہے، جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے، شام جلتا ہے دل خستہ سحر جلتا ہے، نہ فقط مال کا عاشق کے ضرر ہوتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے جو کسی گل کا جگر ہوتا ہے، آگے ہستی کے تری ہستی عالم کیا ہے، تصور تیری صورت کا مجھے ہردم ستاتا ہے، قاصد نوید وصل زبانی ہے یار کی، رکھ کے ہم زانو پہ یہ جس وقت کہ سر بیٹھ گئے، آنکھ لڑتے ہی یہ حالت ہم پہ کچھ طاری ہوئی، اُس نے کتنوں کو مار اُتارا ہے، بازوے کوہ کن کی تلاشی زمین ہے، آئی بسند کوے بتاں کی زمیں مجھے، اُٹھ گیا زیست کے کرنے کا مزہ دنیا سے، کس چاؤ سے دل کا مرے ارمان نکل جائے، منہ سے ترے مربھی جو مری جان نکل جائے، کل اُٹھ گی وہ ہاتھ چھڑا میرے ہاتھ سے، نت اُس بت کافرکی ملاقات نئی ہے، کوچے میں اُس کے جو کوئی جی کھو کے جا سکے، جس سے امیدوفا تھی بے وفائی اس نے کی، کچھ حیا آنکھوں مین ہے اس کی تو کچھ پیار بھی ہے، جب کبھی صید افگنی کو وہ صنم چڑھ جاے ہے، جب شب غم اشک سرخ اپنے کا یم چڑھ جاے ہے، جب ترا ماتھا غضب سے اے صم چڑھ جاے ہے، دیکھ تو ہم میں غم عشق نے کیا رکھا ہے، پیری میں بھی ہم الفت طفلاں سے نہ چھوٹے، نہ دوستی، نہ محبت، نہ دلبری دیکھی، نالے مرے ہر چند اثرکچھ نہیں رکھتے، جس گھڑی یاد وہ زلف و کمر آجاتی ہے، خط کھینچے تو نےمجھے پر تحریرکیا نکالی، رونق بہار حسن تمہارا ہمیں سے ہے، ملنا تر اغیار سے منظور کسے ہے، صورت عرق میں ہے یہ رخ پر حجاب کی، یہ نہ سمجھو کہ سحر چاک گریباں ہووے، لباس سرخ میں کافر بھبوکا بن کے آیا ہے، یار کا سیب زنخداں تو مرے ہاتھ میں ہے، سومفرہیں اس کے گر کوئی بلا پیچھے پڑے، ہاتھ میں لے کے وہ جب تیغ وسپر نکلے ہے، صبح کی شام ہوئی شام کی پھر رات ہوئی، گر چشم تر سے ہم نے ٹک آستیں اٹھالی، شرم آتی ہے اب اٹھ کر یاں سے کیا گھر جایئے، جس میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جائیے، جی میں آتا ہے گر اب کے اس کے در پر جایئے، نہ اس رونے سے آفت دیدہ گریاں پہ آئی ہے، بہار موسم گل اب کے پھر تغیاں پہ آئی ہے، یاد اس کو دیدہ بازی کے ہین فن نئے نئے، خط نیا خال نیا زلف کی تحریرنئی، کاجل آنکھوں میں نہ اتنا بھی لگایا کیجیے، جوں جوں الفت زیادہ ہوتی ہے، جز نجد کے دیکھی نہ کوئی منزل لیلٰی، نہ ڈر سے شیخ کے جام مل آستیں میں ہے، نہ یہ وہ دل ہے کہ اب جس سے نالہ سرکھینچے، دور رہنا ہی بھلا ہے ہمیں محبوبوں سے، گو تم نے مجھے زیست سے بیزار رکھا ہے، مروت بھی اگر آنکھوں میں اس کی اک ذرا ہوتی، غرض کہ جو حرکت ہے سو دل لبھانے کی، تم ہم کو اپنا منہ نہ دکھاؤ تو خوب ہے، اس کی چاہت کے گرفتار ہیں ہم بھی سچ ہے، کوئی کیا جانے کہ اس عشق میں کیا بنتی ہے، بجلی کی کوند دیکھ اسے منہ چھپا گئی، رفتار اس کی دل پہ جو ٹھوکر کر لگا گئی، کب ہاتھ مرا اس کے گریباں کے تلے جائے، جوں جوں دل زخم کھائے جاتا ہے، گاہ مد سرمے کی کاجل کی گہے تحریر ہے، آیا تھا ترے سجدے کو میں خواب عدم سے ، ملوہو غیروں سے اور ہم سے بے وفائی ہے ، یوں ہے نازاں جی سے مجھ کو وہ ستم گر مار کے، مار ڈالا ہے ادا نے تیری، دیکھ کر صورت تمہاری ہم بہت پر غم ہوئے، راہ میں کشتے پڑے ہیں کئی ارمان بھرے، مثل آئینہ فقط وہ ہے اور اک حیرت ہے، چمن ہے سبزہ ہے ساقی ہے اور ہوا بھی ہے، ہر ایک قدم پر جو وہاں غش کی جگہ ہے، دل خارا میں مرا نالہ اثر کرتا ہے، جھپٹے میں آگیا ہے دل اپنا اس پری کے، ہر قدم انداز ہے ہر گام پر ایک ناز ہے، منہ پھرا لینے میں تو بارے بھلا اک ناز ہے، یوں مقتل غریبوں کا ، اے شوخ رو اکب ہے، اے فلک آپ کو اتنا جو پھرایا تو نے، شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشک باری دے گئے، خطرہ ہے مجھے اس دل کم بخت کی خو سے، چھیڑے سے مرے ہر دم زلف اس کی اکڑتی ہے، طاق پر خوشہ انگور دھرا رہتا ہے، ہر ایک بال وہ جس کے تئیں کمر نہ لگے، جو تھے سننے والے اس آہ حزیں کے، کوئی ایسا نہیں ملتا کہ ہم کو ہم سے لے جاوے، رباعیات، مسدس، مثنوی در افراط سرما، مثنوی در افراط گرما، مثنوی درافراط آتش، مثنوی پسر تنبولی، مثنوی در ہجو مکانے۔

In Urdu

Hbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.