رم ٓاھو : عدم، عبدالحمید
Material type:
- 891.4391 ع د م
Item type | Current library | Call number | Status | Barcode | |
---|---|---|---|---|---|
Book | NPT-Nazir Qaiser Library | 891.4391 ع د م (Browse shelf(Opens below)) | Available | NPT-001222 |
رم ٓاھو
یہ ناوک قلب پر کھانے کی گنجائش بہت کم ہے، بڑی زرخیر مٹی سے صنم خانے نکلتے ہیں، جہاں فقیروں کو گھیر لیتی ہے ناگہاں گردش زمانہ، اسلوب چشم یار بہت دلفریب ہے، دل زخم نہ خم اور جگر چاک چاک ہیں، عجیب رنگ کی باتین سن گئے ہوتم، اذیت کے دو چار دن کٹ رہے ہیں، گزرتے ہیں ہم ایسے تیرے نگر سے، ہمیں اتنا نہ خستہ حال رکھو، بلا کی دھوپ ہے کیا رہگزار میں دم لیں، کسی سے گفتگو اک بار ہوگی، زبان راز میں نکتہ کوئی رندانہ کہتا تھا، بہت مشکل ہے لیکن صاحب توفیق کرتے ہیں، پیالہ سیہ رات کی آنکھ ہے مجھے جام بخشو، اُسے ساز دو، یہ گوہر نایاب ستاروں میں ملے گا، خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں، یازہرہ جبنیوں کی مناجات کریں گے، ہمارے ساتھ قدم دو قدم چلو گے حضور، لے کے اُس بزم میں جو صدق کی سوغات گئے، اب تہی بھی کرو تم پیالہ، چل رہی ہیں گلابی ہوائیں، ترا جمال اگردل پناہ بن جائے، کچھ اہل ذوق کو غم نے جلا کے مار دیا، کل پڑے جان من کہ آج پڑے، بسریوں جوانی کی راتیں کریں، یار بالائے بام آتا ہے، یہ زیست تواے خلاق جہں اک دار دکھائی دیتی ہے، اُس ماہ جبیں کی جوشے ہے اے یارنہایت اچھی ہے، غزل سناؤ مجھے نال کوث میں پیاری، ہر اک بات وجدان کی بات ہے، نگاہ یار کی نیت میں جو بہانے ہیں، مشیت ہے یادام تقدیر ہے، جو بھی دیکھا ہے مرد فرزانہ، سربھی پتھر ہے پاؤں بھی بھاری، اب اس کی بزم نا ز میں پروانہ ایک ہے، کچھ بھی نہیں ہے وجہ شکایات کچھ نہیں، ساقی بہ شکل ابررواں جا رہا ہے حُسن، تدبیر بھی شکل تقدیر کی، بسیا اگر نہیں ہے تو کم ہی سے کام لو، یہ مقدر کہاں پیالوں کے، غفلت واجب الوجوب کرو، یوں رنگ بھری امیدوں کے اصنام اکارت جاتے ہیں، مستی میں جو لب پر آتے ہیں وہ نام مقدس ہوتے ہیں، غنچہ بھی نوک خار ہے، کچھ تو بلائے جان ہے، غمگیں اداس درد کے مارے چلیں گے ہم، جب حسن اعتبار کی توقیر لُٹ گئی، لیا کیا تخیل نے مفہوم ہوکر، تغافل مروت کی ترکیب سے اِک، یہ پھول چمن کے ہر غنچے ہر پھول سے زاہد رُخشاں ہے، جب غنچہ وگل کی محفل میں ہم یار کی باتیں کرتے ہیں، میں بھی سرکار گوسوالی ہوں، کیا عجب ان کے کام دھندے ہیں، طبیعت جب نئی اُمیدسے مانوس ہوتی ہے، جنوں عشق کےپہلے عمل کی یاد آتی ہے، آپ کے جس قدر بہانے تھے، پھروہ تقریب درد سرآئی، چلےبھی آؤابھی باغ میں اُجالا ہے، بنا رہا ہوں ترے خال وخط خیالوں میں، حسن جب اعتنا پذیرہوا، جززیاں کوئی چیز نہیں، مرے مہ جبیں مرا ظرف دل ترے میکدے ہی کا راز ہے، مجھےاس کا خبط ہو کس لیے یہ جدید ہے وہ قدیم ہے، زہد کا خوب کام چلتا ہے، عشق شرمندہ وفا ہوگا، وہ یوں ہمارے دل میں تشریف لا رہے ہیں، مثل سبو ملیں گے مثل صبا ملیں گے، وہ اِس طرح بات کرگئے ہیں، نہ موج نکہت نہ سنگ خارا، یوں نہ فیاضی تعمیر حکایات کرو، ہم جب آتے ہیں ہیں سرانجمن سیم براں، رمز کونکتہ داں سمجتے ہیں ، مے نہیں لے نہیں نگاہ نہیںِ، دن تو پورا گزار بیٹھے ہیں، جو ہنر زینت بازار ہوئے جاتے ہیں، روح مغموم ہے لد ڈوب رہا ہے ساقی، ہر دل فریب چیز نظر کا غبار ہے،اک لمحہ میکدے میں جو ہم لوگ آگئے، نگاہ کو سکی صورت کی پیاس رہتی ہے، تہی بھی ہوں تو پیمانے حسین معلوم ہوتے ہیں، عنایت کراگر تہمت ربا الاک جامہے ساقی، مزاج دل نہ ملا، دوست کی رضا نہ ملی، ہاتھ میں کے کے سبو جب وہ صنم لہرایا، گلوں پر خوف طاری ہے فنا کا، گیسوئے یار کا بکھر جانا، دل کی دھرتی پہ پاؤں جب رکھو، آکے مقتل میں کیا خطا کی ہے، بہت ممنون فرمائی گی، کھولوں گا اس طرح تری زلف دراز کو، کچھ غرض پیدا کرو، کوئی طالب پیدا کرو، زندگی کے اُمور برہم ہیں، گو علیل اور سرد جان سے ہیں، جب اُس کی نگاہ بے پرا الطاف پہ مائل ہوتی ہے ، ہم اہل نظر اے جان نظر برباد ہیں، کیوں معتوب میں کیوں، تیری زلفوں میں برسات کی رات ہے، مقالات ہیں پھول ہیں جام ہیں، اگرچہ لوگ تھے ناواقف بہانہ ساز، پھروہ گیسو جو بہ ہنگام سحر یاد آیا، اُتر آئی ہے شام لے آئیے، کچھ تری بے رُخی کچھ جہاں کے ستم، کا کل خوباں کی بات، آرام جاں کی بات ہے، ہرتمنا ظلم تھی ہر ولولہ بیداد تھا، کوئی سمجھے تو بات بن جائے، ساز لرزاں رہیں' مضراب فراموش نہ ہوں، یارا غیار، دیکھا جائے گا، قاصد تو اگر جاتا ہے اُدھر یہ گرم نگاہیں لیتا جا، کبھی فصل گل میں ایسا بھی سمان بندھے نگارا، جمال صبح میں گا ہے سواد شام میں گاہے، کا کل یار کو بوسوں سے معطر کردو، کو ہکن بندہ مزدور نہ ہونے پائیں، ہوتے ہیں خوش مزاج صنم، عام پور پر، کہیئے! امروز مرادیں نہ منائی جائیں، کبھی دور پیمانہ ارغواں ہے، غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا، کیا چشم زون کے وقفے میں ہنگام طرب کا فور ہوا، بستی میں بھی مدت بعدکبھی تیرے لیے پھیرا کرلیں گے، بربط کے تار کوذرا انگلی لگا بھی دے، کونین کو نظرمیں نہ لا میرے سامنے جب بھی کوئی قصور ہوتا ہے، محبت رائگاں ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے، مرحلہ اِک توکٹا دوسرا امکاں ہوکر گونشے میں ہے چُور بات مری، یہ جو انداز ابرو باراں ہیں، اُن حسیں آنکھوں کا یارانہ کہاں گم ہوگیا، بے نیاز مآل رکھئے گا، جلوہ گر جب وہ گلبدن ہوگا، اگرحضور مناسب خیال فرمایئں، کوئی خدمت دل جواں کےلیے، ہمیں نہیں یاداب رفیقو اکہ بات بھر ہم کہاں رہے ہیں، خلاف امید آج اسُکی نظرجو مبذول ہوگئی ہے، دامن تنگ کہاں فیض رساں ہوتا ہے، ٹانگ کر پھول کُھلے مست گربیانوں، کوہ وصحرا کے جگر چیر کے چشمے لاؤ، رہ وفامیں یہ اعزاز کس کو ملتا ہے، وہ جو فصل بہار ہوتی ہے، یہ جومے میرے لب کاحصہ ہے، جب وہ غنچہ دہن نہیں ملتا، آپ اگر کچھ مرے قریں ہوتے، اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو، جفا کا لُطف باندازہ وفا نہ ملا، جب گھٹا صحں خرابات پہ چھا جاتی
ہے، شباب میں بھی یہی گردش زمانہ تھی، وہی نگاہیں وہی تبسم وہی ادائیں وہی اشارے، نگاہ اندوہ ناک چہرہ اداس، دل بیقرار کیوں ہے، تری جبیں اس قدر حسیں ہے کہ اسکو تھوڑاسا پیار کر لوں، کچھ قلب بھی ہے حساس مرا کچھ رات بھی کافرآئی ہے، ماضی کی یاد بن کے مرے دل میں آئیے، راہزن راہ نما گام بہ گام آئیں گے، موج ہوں رنگ ہوں خوشبو ہوں کہ آواز ہوں میں۔
In Urdu
Pbk.
There are no comments on this title.