Image from Google Jackets

اڑان : محسن چنگیزی

By: Material type: TextTextPublication details: Lahore : Al-Hamd Piublications, 2003.Description: 157 pagesSubject(s): DDC classification:
  • 891.4391 م ح س 2003
Contents:
پیش نامہ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، عین سلام، محسن بھوپالی، کیسے خیموں پہ کھُلے باب خبر پانی کا، قیام میں بھی کسی راہ پر روانہ تھا، آنکھیں کھلیں کہ واد زندان ہوگیا، ترے فراق میںدل سے نکال کر دُنیا، رائیگاں کوئی بھی منظر نہیں دیکھا جاتا، یقین کے اسلوب میں لکھا کیا گمان میں نے، کئی دنوں سے عجب کیفیت ہماری ہے، سفرذات کا کچھ ایسا بھرم رکھوں گا، رائیگانی کی یہی مجھ کو سزا دی گئی ہے، اُجرت عشق تھے قسطوں میں ادا ہوگئے ہم، کوفہ عشق میں کچھ ایسی اطاعت کرتے، درُون جسم جب اندھیراچھانے لگتا ہے، معجزہ یہ بھی سردست دکھایا جائے، یہ جو دیوار سے ہم جانب درد دیکھتے ہیں، کیسا عجب کھیل مقدر سے لے گیا، بند آنکھوں میں تیراخواب کہاں سے آیا، جب سے دُعا و اشک سے انجان ہوگئے، عجزوسعت کی خموشی سے جو آراستہ ہے، کیوں نہ دریا کو سنائیں یہ کہانی اپنی، منتظر کس کا ہے اس کا شنا ساکون ہے، ہے کون جو دے رہا ہے مجھ کو مقام میرا، ہر اِک نجیب سے ہے طالب نسب ایک شخص، دنیا سے مراسم کا جب آغاز ہوا تھا ، اسی کے نام پہ دونوں جہاں اُجالتے ہیں، آسماں تکتا رہا مجھ کو کس انداز کے ساتھ، عرصہ حبس کے زنداں میں جو ہم زندہ ہیں، خوش لباسی کے تصور میں بھی عریاں ہونا، شکست خواب کا نوحہ لبوں پہ لاتے ہوئے، گلدان کی مسند کی طرف دیکھ رہا ہے، عالم خواب میں بیدار سمجھئے ہم کو، ملا کہیں سے نہ جب رنج آشنائی کا، وہی پرانی حکایت وہی کہا نی ہے، کس قدر رنج سے یہ کارزیاں کھینچتے ہیں، منظر یک خواب آنکھوں کو دکھا کرلے گیا، یہ زندگی سےمری یامغالطہ میرا، عجب تساہل سے سب کو حیران کررہے ہیں، جو منظروں کا کبھی اعتراف کرتا ہے، تضاد وقت نے جب کوئی مہربانی کی، کہیں جاتا نہیں ہے جو وہی رستا دیا ہے، ہر ایک نقش جویوں رائیگاں بناتے ہیں، اپنے تیشے ہی کے نیرنگ میں رہنا ہوگا، خواب کی گرد کو پلکوں سے ہٹانے کےلیے، کیا تھا جس نے فلک درفلک سفر مجھ میں، یہ ہم جو حلقہ ءافسردگاں میں رہتے ہیں، ستارہ تھا نظر میں شام سے پہلے نہیں آیا، کچھ نہیں معلوم کس دُھن میں کہاں گم ہوگیا، کچھ خموشی کی ریاضت میں مجھے دے جاؤ، سفر کی ایک اور سمت پا کر چلا گیا ہوں، چابی کے گم ہونے کا خمیازہ ہوں، حرف الزام بنوں یا کہ دُعا ہو جاؤں، نیند بھی کارمشقت ہے چلو یو نہی سہی، کس غم سے جگایا ہے یہ جادوو میرے دل میں، دیا جلا کے سپرد ہوا نہیں کرتے ، خامشی ساز کا معیار بنائے ہوئے ہیں، حدیقیں سے ورا، واقعہ ہی ایسا تھا، اسیر خواب کی تعبیر لے کے آیا ہوں، جن پرندوں کے پر اضافی ہیں، اشکوں سے دور دجام کی تزئین کرگئے، لہو میں نیند کا نشہ ہے آنکھ بند نہیں، شوق زنجیر سفر پاؤں میں ڈالے کیسے، ہاں اُسی لمحہء رفتار سے ڈر لگتا ہے، مثال بوئے گل یا سمیں یہ تم تو نہیں، کیا عجب راز آشکار کیا، بندھے پروں سے ہی پرواز کرناچاہتے ہیں، خود اپنی خوش نظری کے دوانہ ہوگئے تم، اندر کی خامشی کی گرہ کھولتے نہیں، ذرمے میں قید ہوکے بھی بکھرا ہوا ساتھا، دل پر خوں کی اِک گلابی سے، حرس سپاس۔
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
Star ratings
    Average rating: 0.0 (0 votes)

پیش نامہ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، عین سلام، محسن بھوپالی، کیسے خیموں پہ کھُلے باب خبر پانی کا، قیام میں بھی کسی راہ پر روانہ تھا، آنکھیں کھلیں کہ واد زندان ہوگیا، ترے فراق میںدل سے نکال کر دُنیا، رائیگاں کوئی بھی منظر نہیں دیکھا جاتا، یقین کے اسلوب میں لکھا کیا گمان میں نے، کئی دنوں سے عجب کیفیت ہماری ہے، سفرذات کا کچھ ایسا بھرم رکھوں گا، رائیگانی کی یہی مجھ کو سزا دی گئی ہے، اُجرت عشق تھے قسطوں میں ادا ہوگئے ہم، کوفہ عشق میں کچھ ایسی اطاعت کرتے، درُون جسم جب اندھیراچھانے لگتا ہے، معجزہ یہ بھی سردست دکھایا جائے، یہ جو دیوار سے ہم جانب درد دیکھتے ہیں، کیسا عجب کھیل مقدر سے لے گیا، بند آنکھوں میں تیراخواب کہاں سے آیا، جب سے دُعا و اشک سے انجان ہوگئے، عجزوسعت کی خموشی سے جو آراستہ ہے، کیوں نہ دریا کو سنائیں یہ کہانی اپنی، منتظر کس کا ہے اس کا شنا ساکون ہے، ہے کون جو دے رہا ہے مجھ کو مقام میرا، ہر اِک نجیب سے ہے طالب نسب ایک شخص، دنیا سے مراسم کا جب آغاز ہوا تھا ، اسی کے نام پہ دونوں جہاں اُجالتے ہیں، آسماں تکتا رہا مجھ کو کس انداز کے ساتھ، عرصہ حبس کے زنداں میں جو ہم زندہ ہیں، خوش لباسی کے تصور میں بھی عریاں ہونا، شکست خواب کا نوحہ لبوں پہ لاتے ہوئے، گلدان کی مسند کی طرف دیکھ رہا ہے، عالم خواب میں بیدار سمجھئے ہم کو، ملا کہیں سے نہ جب رنج آشنائی کا، وہی پرانی حکایت وہی کہا نی ہے، کس قدر رنج سے یہ کارزیاں کھینچتے ہیں، منظر یک خواب آنکھوں کو دکھا کرلے گیا، یہ زندگی سےمری یامغالطہ میرا، عجب تساہل سے سب کو حیران کررہے ہیں، جو منظروں کا کبھی اعتراف کرتا ہے، تضاد وقت نے جب کوئی مہربانی کی، کہیں جاتا نہیں ہے جو وہی رستا دیا ہے، ہر ایک نقش جویوں رائیگاں بناتے ہیں، اپنے تیشے ہی کے نیرنگ میں رہنا ہوگا، خواب کی گرد کو پلکوں سے ہٹانے کےلیے، کیا تھا جس نے فلک درفلک سفر مجھ میں، یہ ہم جو حلقہ ءافسردگاں میں رہتے ہیں، ستارہ تھا نظر میں شام سے پہلے نہیں آیا، کچھ نہیں معلوم کس دُھن میں کہاں گم ہوگیا، کچھ خموشی کی ریاضت میں مجھے دے جاؤ، سفر کی ایک اور سمت پا کر چلا گیا ہوں، چابی کے گم ہونے کا خمیازہ ہوں، حرف الزام بنوں یا کہ دُعا ہو جاؤں، نیند بھی کارمشقت ہے چلو یو نہی سہی، کس غم سے جگایا ہے یہ جادوو میرے دل میں، دیا جلا کے سپرد ہوا نہیں کرتے ، خامشی ساز کا معیار بنائے ہوئے ہیں، حدیقیں سے ورا، واقعہ ہی ایسا تھا، اسیر خواب کی تعبیر لے کے آیا ہوں، جن پرندوں کے پر اضافی ہیں، اشکوں سے دور دجام کی تزئین کرگئے، لہو میں نیند کا نشہ ہے آنکھ بند نہیں، شوق زنجیر سفر پاؤں میں ڈالے کیسے، ہاں اُسی لمحہء رفتار سے ڈر لگتا ہے، مثال بوئے گل یا سمیں یہ تم تو نہیں، کیا عجب راز آشکار کیا، بندھے پروں سے ہی پرواز کرناچاہتے ہیں، خود اپنی خوش نظری کے دوانہ ہوگئے تم، اندر کی خامشی کی گرہ کھولتے نہیں، ذرمے میں قید ہوکے بھی بکھرا ہوا ساتھا، دل پر خوں کی اِک گلابی سے، حرس سپاس۔

In Urdu

Pbk.

There are no comments on this title.

to post a comment.