تفہیم بال جبریل : خواجہ محمد ذکریا، ڈاکٹر
Material type:
TextPublication details: Lahore : Bazm-i-Iqbal, 2002.Description: 428 pages U/849Subject(s): DDC classification: - 181.07 ا ق ب 2002
| Item type | Current library | Call number | Status | Barcode | |
|---|---|---|---|---|---|
| Book | NPT-Nazir Qaiser Library AIlama Iqbal | 181.07 ا ق ب 2002 (Browse shelf(Opens below)) | Available | NPT-011849 |
تفہیم بال جبریل
(غزلیات: حصہ الف): میری نوائے شوق سے شورحریم ذات میں، اگرکج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا، گیسوئے تابدار کو اور بھی بدارکر،اثرکرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد، کیاعشق ایک زندگی مستعار کا، پریشان ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے، دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیر ہے ساقی، لا پھر اک بار وہی بادہ وجام اے ساقی، مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من وتو، متاع بے بہا ہے درد سوز آرزو مندی، تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ، ضمیرلالہ مئے لعل سے ہوا لبریز، وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی، اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں، اک دانش نورانی اک دانش برہانی، یارب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن، (حصہ ب) سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا، یہ کون غزل خواں ہے پرسوز ونشاط انگیز، وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں، عالم آب وخاک وباد سرعیاں ہے تو کہ میں، تو ابھی رہگور میں ہے قید مقام سے گزر، امین راز ہے مردان حرکی درویشی، پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن، مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا، عشق سے پیدا نوائےزندگی میں زیروبم، دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے، ہزار خوف ہولیکن زبان ہودل کی رفیق، پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی، یہ حوریاں فرنگی دل ونظر کاحجاب، دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری، خودی کی شوخ وتندی میں کبروناز نہیں، میرسپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف، زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی، یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس وخاشاک، کمال ترک نہیں آب وگل سے مہجوری، عقل گو آستاں سے دورنہیں، خودی وہ بحرہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی، تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ، خرد کےپاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں، نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے، نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے، تواے اسیرمکان لامکاں سے دورنہیں، خرد نے مجھ کو عطا کی نظرحکیمانہ، افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر، ہرشے مسافر ہرچیز راہی، ہرچیز ہے محو خودنمائی، اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ، خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے، جب عشق سکھا تا ہے ادب خود آگاہی، مجھے آہ وفغان نیم شب کا پھی پیام آیا، نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی، فطرت کو خرد کے روبرو کر، یہ پیران کلیسا وحرم اے وائے مجبوری، تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم، ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں، ڈھونڈرا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام، خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل، مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے، حادثہ وہ جوا بھی پردہ افلاک میں ہے رہا نہ حلقہ صوفی میں سو مشتاقی ، ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گربیاں چاک، یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یکدانہ، نہ تخت وتاج میں نے لشکر وسپاہ میں ہے، فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ چالاک، کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد، کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی، نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی، گرم فغاں ہے جرس اُٹھ کہ گیا قافلہ، مری نواسے ہوئے زندہ عارف وعامی، ہراک مقام سے آگے نکل گیا مہ نو، کھونہ جااس سحر وشام میں اے صاحب ہوش، تھا جہاں مدرسہ شیری وشاہنشا ہی، ہے یاد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ، فقر کے ہیں معجزات تاج وسریروسپاہ، کمال جوش جنون میں رہا میں گرم طواف، شعور وہوش وخرد کا معاملہ ہے عجیب، قطعہ: انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے، (رباعیات): ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے، دلوں کو مرکز مہرووفا کر، رہ ورسم حرم نامحرمانہ، ظلام بحر میں کھوکر سنھبل جا، مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں، خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں، پریشاں کاروبار آشنائی، یقیں مثل خلیل آتش نشینی، عرب کے سوز میں ساز عجم ہے، کوئی دیکھے تو میری نے نوازی، ہراک ذرے میں ہے شاید مکیں دل، ترا اندیشہ افلا کی نہیں ہے، نہ مومن ہے نہ مومن کی معراج، خودی کی خلوتوں میں مصطفائی، نگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ وبومیں، جمال عشق ومستی نےنوازی،وہ میرا رونق محفل کہاں ہے، سواز ناقہ ومحمل نہیں میں، ترے سینے مین دم ہے دل نہیں ہے، ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو، محبت کا جنوں باقی نہیں ہے، خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا، چمن میں رخت گل شبنم سے ترہے، خرد سے راہر وروشن بصرہے، جوانوں کومری آہ سحر دے، ترنی دنیا جہاں مرغ وماہی، کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں، وہی اصل مکان و لا مکاں ہے، کبھی آوازہ بے خانماں عشق، کبھی تنہائی کوہ ودمن عشق، عطا اسلاف کا جذب دروں کر، یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے، خرد واقف نہیں ہے نیک وبد سے، خدائی اہتمام خشک وترہے، یہی آدم ہے سلطاں بحروبر کا، دم عارف نسیم صبحدم ہے، رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے، کھلے جاتے ہیں اسرارنہانی، زمانے کی یہ گردش جاودانہ، حکیمی نامسلمانی کودی کی، ترا تن روح سے ناآشنا ہے، (قطعہ) اقبال نے کل اہل خیاباں کوسنایا، (منظومات) دعا، مسجد قرطبہ، قیدخانے میں معتمد کی فریاد، عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کجھور کا پہلا درخت ۔ سرزمین اندلس میں، لینن (خدا کے حضور میں )ِ، فرشتوں کا گیت، فرمان خدا( فرشتوں سے)، ذوق وشوق، پروانہ اورجگنو، جاوید کے نام، گدائی، ملا اور بہشت، دین و سیاست، الارض للہ، ایک نوجوان کے نام، نصیحت، لالہ صحرا، ساقی نامہ، زمانہ ، فرشتے آدم کوجنت سے رخصت کرتے ہیں، روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، پیرومرید، جبریل وابلیس، اذان، محبت، ستارے کا پیغام، جاوید کے نام، فلسفہ ومذہب، یورپ سے ایک خط، نپولین کے مزار پر، مسولینی، سوال، پنجاب کے دہقان سے، نادرشاہ افغان، خوشحال خان کی وصیت، تاتاری کا خواب، حال ومقام، ابوالعلا معری، سنیما، پنجاب کے پیرزادوں سے، سیاست، فقر، خودی، جدائی، خانقاہ، ابلیس کی غرضداشت، لہو، پرواز، شیخ مکتب سے ، فلسفی، شاہیں، باغ مردی، ہارون کی آخری نصیحٹ، ماہرنفیسات سے،
یورپ، آزادی افکار، شیراورخچر، چیونٹی اورعقاب۔
In Urdu
Hbk.
There are no comments on this title.